فیض آباد پر ناکہ نہیں ہانکہ لگا ہوا ہے


دھرنا

تمہارا مسئلہ معلوم ہے کیا ہے؟ یہ کہ تم انتہائی خود غرض ہو صرف مطلب کی بات سمجھتے ہو۔ تمھیں کوئی مطلب نہیں کہ بندہِ خاکی کیا چاہتا ہے۔

قانونی، اخلاقی، انسانی دلائل دینے میں کیوں وقت ضائع کر رہے ہو۔ ڈنڈے کے روبرو دلیل کمزوری کی دلیل ہے۔ کیا چشمے پر کھڑے بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے کی پانی گدلا کرنے والی کہانی بھی بچپن میں نہیں سنی؟

یہ تو کوئی نابینا بھی جانتا ہے کہ جس مسئلے پر فیض آباد کا دھرنا جاری ہے وہ مسئلہ تو پارلیمان کب کا سلٹا چکی۔ تب سے سرکارِ عباسیہ تین ہزار قسمیں بھی کھا چکی کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت باہوش و حواس احمدیوں کی آئینی حیثیت کے بارے میں کسی بھی قانون میں ترمیم تو کجا اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔

ختمِ نبوت پر ایمان کی حلفیہ وڈیوز جاری کرنے کا فائدہ؟ دھرنا ختم کرانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی کاپی لہرانے سے کیا حاصل؟ تم اتنی سی بات سمجھنے کو کیوں تیار نہیں کہ ہم اب تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ بوریا بستر گول کرو۔ یہ فیض آباد پر ناکہ نہیں ہانکہ لگا ہوا ہے۔

ہانکہ سمجھتے ہو؟ کبھی شیر کا شکار کیا؟ سنا بھی نہیں کہ بادشاہ کیسے شکار کرتا ہے؟ ہانکہ ڈھول ڈھمکے اور نعروں سے مسلح لوگوں کی جانب سے آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کر کے شکار کو مطلوبہ مقام تک پہنچانے کو کہتے ہیں۔ جہاں سے ہاتھی یا مچان پر بیٹھا بادشاہ ایک تیر یا گولی سے شکار کا بھیجہ آسانی سے اڑا سکے۔

ہانکہ شکار کو تھکانے اور اوسان خطا کرنے کو کہتے ہیں۔ شکار جتنا سخت جان ہانکہ بھی اتنا ہی طویل۔ ہانکے کے ڈھول مسلسل نہیں وقفے وقفے سے بجائے جاتے ہیں تاکہ شکار پہلے بے یقینی اور پھر خوف میں مبتلا ہو۔ یوں اعصاب جواب دیتے چلے جائیں اور پھر شور کا دائرہ سکڑتا سکڑتا سر پر آ جائے اور شکار بے سدھ ہو جائے۔ پھر شکاری کی مرضی زندہ پکڑتا ہے یا مردہ۔

تمہارا کیا خیال ہے فیض آباد کا دھرنا ختم کرنا مشکل ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ اگر ایک فون پر نواز شریف اپنا عدلیہ بحالی لانگ مارچ گوجرانوالہ میں روک سکتا ہے، اگر ایک میسج پر طاہر القادری اچانک اسلام آباد کے ڈی چوک سے بوریا بستر لپیٹ کر عمران خان کو ہکا بکا چھوڑ کر نکل سکتا ہے۔ اگر ایک کال پر عمران خان 126 دن سے جاری کامیاب دھرنا ختم کر سکتا ہے تو فیض آباد کا دھرنا کیا بیچتا ہے۔ مگر تم غلط نمبر سے ڈائل کر رہے ہو اور درست نمبر مسلسل انگیج ہے۔

ایک داغدار کرپٹ قیادت والی حکومت کو بہرطور جانا ہی چاہیے۔ اس پر پارلیمانی و غیر پارلیمانی سطح پر اتفاقِ رائے ہے۔ مگر کیسے پتہ چلا کہ مسلم لیگی حکومت داغ دار اور کرپٹ ہے؟ ظاہر ہے پاناما لیکس سے۔

ایک منٹ ! جب لیگی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی چار حلقوں میں دھاندلی کا پتہ چلانے کے لیے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے کے بہانے ہانکے کا پہلا ڈھول بجا اور ایک برس بعد اگست 2014 میں گو نواز گو کا ڈھول مسلسل پیٹنے سے ہانکے کا باضابطہ آغاز ہوا تب تو پاناما کہیں نہیں تھا ۔

اے شریفو خدا کے لیے یہ مت کہنا کہ تم ہانکے کا مطلب نہیں سمجھتے۔ پہلا ہانکہ پی این اے سے بھٹو کو گھیرنے کے لیے کروایا گیا تو اس وقت تم اصغر خان کی تحریکِ اسلتقلال میں تھے۔ پھر تم سے آئی جے آئی کے ہانکہ بردار جمع کروائے گئے ۔ پھر تم آپ اپنے استاد ہو گئے اور سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری کا شکار کرنے کے بعد خود کو جم کاربٹ سمجھنے لگے اور اس دھوکے میں ایک ایسے شکار پر چھلانگ لگا دی جو جھکائی دے کر نکل گیا اور پلٹ کر تمہاری گردن دبوچ لی۔ تب کہیں جا کر تمہیں احساس ہونے لگا کہ ہانکہ کرنا اور اس کا حصہ بننا کتنا خطرناک ہے۔ مگر تب سے ہانکہ برداروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو چکی ہے۔

ویسے بھی ہانکے میں استعمال ہونے والوں کو اکثر کھانا اور شاباش ہی ملتی ہے۔ کبھی کسی نے سنا کہ شکار میں سے بھی حصہ ملا ؟ اب بھی جو شکار ہوگا اس کے بھی شکاری تین برابر کے حصے کرے گا۔

یہ میرا، دوسرا میرے ساتھیوں کا، تیسرا تم سب کا، ہمت ہے تو اٹھا لو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).