حقیقی نیکی۔۔۔ حور و خیام سے گزر


\"quratulہم دین کے بارے میں خواہ مخواہ فکر مند رہتے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ہاں دین داروں کی کمی نہیں۔ گھروں سے لے کر گلی محلے تک ان دین داروں سے بھرے پڑے ہیں ۔ ایسا دین دار رشتہ دار کسی کے گھر آ جائے تو اپنے وظائف اور نمازیں گنوانے لگتا ہے ۔ محلے سے کوئی آپا یا باجی آ جائے تو وہ اپنی نیکیوں کا پرچار کرنے لگتی ہے۔ اگر کبھی کوئی پڑھا لکھا دین دار گھر آ جائے تو وہ سرے سے ہی ہمیں بے ایمان سمجھتے ہوئے اپنے دین کو بزورِ زبان ہمارے دماغ میں ٹھونسنے کی کوشش کرنے لگتا ہے ۔ ہم بعض دفعہ ان کی نیکیوں کو سن کر خود کو بے حد گناہ گار محسوس کرتے ہوئے زمین میں گڑے جاتے ہیں ۔ لیکن تجربے نے ثابت کیا کہ دین کے لبادے میں ملبوس یہ نام نہاد دین دار عملی اور اخلاقی طور پر صفر ہوتے ہیں ۔ ان کی دین داری محض دکھاوا اور تصنع ہوتی ہے۔ اپنی نیکیوں کا پرچار کرنے والے ان دین داروں کے ہاتھوں ان کے رشتہ دار تکلیف اٹھاتے اور ہمسائے نالاں رہتے ہیں ۔ دوسروں کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دینے والے ایسے لوگ اپنے ہاں شادی بیاہ کے موقعوں پر خوب دل کھول کر اسراف کرتے ہیں، اور انکے بچے وہی رسومات کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے نفرت کا اظہار یہ دین دار ہر محفل میں کرتے رہتے ہیں ۔

ہمارے پڑوس میں ایک اماں خالہ تھیں جو ایک جماعت بھی نہ پڑھی تھیں لیکن دینی درس سن سن کر دین دار ہونے کی سند امتیاز ضرور رکھتی تھیں ۔ نیاز دلوانا ان کے ہاں گناہ کبیرہ تھا، لیکن دور دراز کے محلوں میں جا کر نیاز کھانا اور گھر لانا ثواب سمجھتی تھیں ۔ان کے نزدیک فوٹو کھنچوانا بدعت تھی ۔ کہتی تھیں گانے سننے اور فلمیں دیکھنے والوں کے کانوں اور آنکھوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا، لیکن ان کے ایک درجن سے زائد بچے ان گانوں کا کثرت سے ورد کرتے پائے جاتے اور ان کے گھر میں انڈین فلمیں بلند آواز میں چلتیں۔ ان کی بیٹی کی شادی پر خوب ناچ گانا بھی ہوا۔ ایسے لوگ دوسروں کی لغزشوں اور غلطیوں کا خوب چرچا کرتے ہیں، مخالف کو دوزخی کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے، جنتی ہونے کی سند تھامے خود کو ہرغلطی اور خطا سے پاک قرار دیتے ہیں ۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ہر دور کے حکمرانوں کا بھی رہتا ہے جو خود کو محب وطن اور دوسروں کو وطن دشمن اور غدار قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی تقاریر سے یہ محسوس ہوتا ہے گویا ملک و قوم کے سچے خادم اور محب وطن صرف یہی ہیں اور ان کا ہر قدم ملک کو ترقی کی طرف لے جا رہا ہے ۔ قومی سرمائے سے روزانہ بڑے بڑے اشتہارات میں اپنے منصوبہ جات کا نشہیر ان کا من پسند مشغلہ ہوتا ہے ۔ قومی دولت لوٹ کر غیر ملکوں میں جائیدادیں بنانا اور بیرونِ ملک بینکوں میں لوٹی ہوئی دولت جمع کروانا ان کے نزدیک حب الوطنی ہے جبکہ وطن دشمن اور خائن تو صرف مخالف جماعتیں ہوتی ہیں ۔ ملک چوروں، ڈاکوؤں اور قاتلوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے لیکن وہ ہر طرف سکھ چین ہی بتاتے ہیں ۔ مہنگائی کے بوجھ سے عوام کی کمر دوہری ہو چکی ہے لیکن وہ ایسے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں گویا مہنگائی کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ان کی عوام دوستی اور غریب پروری کا بھانڈا اسی وقت پھوٹ جاتا ہے جب سیلاب اور زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے قائم کی گئی جعلی خیمہ بستیاں اور امدادی کیمپ حکمرانوں کی تقاریر، فوٹو سیشن اور روانگی کے فوراً بعد لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے اکثر ترقیاتی منصوبے محض تشہیری ہوتے ہیں۔ صرف سرکاری فائلوں میں سڑکیں، ہسپتال اور اسکول تعمیر ہو جاتے ہیں اور پھر ہر سال ان کی مرمت کے لیے مختص بجٹ بھی سیاست دان اور سرکاری اہل کار مل جل کر کھا پی جاتے ہیں ۔ ستم یہ کہ ملک و قوم کے ساتھ اپنی محبت اور کارکردگی ثابت کرنے کے لیے عوام کے ٹیکسوں ہی سے ان نام نہاد منصوبہ جات کی خوب تشہیر بھی کی جاتی ہے ۔ یعنی عوام کی جوتیاں عوام کے سر۔

سچے اللہ والے اپنی نیکیوں اور فلاحی کاموں کی تشہیر نہیں کرتے ۔ ان کا ہر کارِ خیر خلقِ خدا کی خدمت کے لیے، صلہ کی طلب سے بالا تر ہوتا ہے ۔ گناہ گار بھی ان کے پاس بیٹھ کر تسکین قلب اور عزت محسوس کرتا ہے ۔ وہ لوگ گناہ گار سے نہیں گناہ سے نفرت کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ خدا کا انعام اور انسانیت کے لیے قابل فخر ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہر طبقہ اور سوسائیٹی میں موجود ہیں ۔جس کی زندہ مثالوں میں عبدالستار ایدھی، انصار برنی،خواجہ غریب نواز ٹرسٹ اوردیگر کئی شخصیات اور ادارے ہیں جو گمنامی کے پردوں میں خلق خدا کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ ستائیش اور تشہیر سے بے نیاز ایسے ہی افراد میں ایک نام پروفیسر محبوب حسین چشتی کا بھی ہے ۔ جنھوں نے دریائے جہلم کے کنارے ایک دور افتادہ قصبہ بیربل شریف میں فروغِ علم اور خدمتِ خلق کے چراغ جلا رکھے ہیں ۔بغیر کسی حکومتی امداد کے ہزاروں غریب طلبا اور مریض ان کے رفاہی ادارے معین الاسلام سے مستفید ہو رہے ہیں۔انکا یہ سفر 35 برس پر محیط ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سینکڑوں طالب علم اس ادارے سے مفت تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، معلم کے طور پر سر انجام دے رہے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments