ایک عجیب و غریب دوستی


پچھلے سال فادرز ڈے پہ ایک دلچسپ واقعہ ہوا جب کئی دوستوں نے سوشل میڈیا پر اپنے اپنے باپ کی شان بیان کی تھی ۔ کسی نے لکھا کہ وہ جو کچھ بھی ہیں ، صرف اپنے والد کی بدولت ہیں۔

کسی نے اِس حوالے سے اپنی علمی ترقی کے مدارج کا ذکر کیا ، کسی نے اعلی اخلاقی تربیت اور اُس کے بیش بہا ثمرات گنوائے ۔

چند ایک نے تو یہ دعوی کر دیا کہ لوگوں نے بزرگوار کو سمجھنے میں غلطی کی، وگرنہ اُن کا شمار تو اولیا اللہ کی صف میں ہونا چاہئے تھا۔ اِس پر روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اشعر رحمان نے دوستوں پر براہِ راست اعتراض کئے بغیر فیس بُک پر ایک معنی خیز فقرہ چست کیا تھا ۔ پنجابی میں کہنے لگے ’’جے سب دے ابے ایڈے ودھیا سن تے فیر ہوئیا کِیہہ؟‘‘ گزشتہ ہفتے اپنے والد کے دنیا سے چلے جانے پر مَیں بھی اسی سوچ میں ہوں کہ ابا تے ساڈا وی ودھیا سی ، پر فیر ہوئیا کِیہہ

۔
یہ جاننے کے لئے کہ ہوا کیا ، مَیں نے حافظہ میں بالکل ابتدائی بچپن کے البم کو پلٹنا شروع کیا تو تین تصویریں ملیں ، سبز ، نیلگوں اور جوگیا ۔ سبز اِس لئے کہ چاچا میراں بخش کا وہ مکان جہاں پاکستان بننے کے پانچ برس بعد مَیں پیدا ہوا ، ریلوے اسٹیشن سے کچھ ہی دور واقع تھا ۔ چنانچہ سب سے اوپر والی چھت سے مسافر ٹرینیں صاف دکھائی دیتیں، جنہیں آزادی کا سورج طلوع ہونے پر ہرے رنگ کے پینٹ سے مشرف بہ اسلام کر دیا گیا ۔

نیلگوں یاد اُس شام کی ہے جب دادا ، جنہیں چار سیالکوٹی پھوپھیوں کی دیکھا دیکھی مَیں نے شروع دن سے ابا جی کہا ، مجھے گود میں لے کر گہرے نیلے رنگ کا اوور کوٹ پہنے سڑک پہ ٹہل رہے تھے ۔ تیسرا منظر کانچ کے جوگیا رنگ کے گلدان کا ہے، جس پہ پڑنے والی سورج کی پہلی کرن نے ایک صبح میرے ننھے سے دل کو ایک انہونی ترنگ سے دوچار کیا تھا ۔

یادوں کا یہ تسلسل زمانی ترتیب کے مطابق نہیں ۔ چنانچہ اتنا معلوم ہے کہ گھر کی پچھلی طرف رام تلائی کی جلسہ گاہ سے گزرتے ہوئے ایک روز سب سے چھوٹی پھوپھو ، باجی فرحت نے مجھے بازوؤں سے اونچا کرکے گلی کی ایک نالی پار کروائی تھی ۔ باجی کے ساتھ مسز نذیر بٹ کے سکول میں ، جنہیں کئی لوگ حنیفہ استانی کہتے ، لڑکیوں کو ہینڈ بال کھیلتے دیکھنا بھی یاد پڑتا ہے ۔

اِسی طرح گھر کے کھُلے صحن میں بارش کی ٹپ ٹپ گرتی ہوئی ہوئی بوندیں ، ایک کمرے کا سرخ چمکیلا فرش ، ساتھ والے گھر میں ایک بڑا لڑکا گُلو اور باہر پیپل کے درخت کا منظر بھی ہے،جہاں کھڑے کھڑے بی جی نے مجھے ایک پتے کی پِیپنی بنا کر دی تھی ۔ دھیمے مزاج کی بی جی سب کی امی تھیں اور دو اڑھائی سالہ پہلوٹھی کے لڑکے کا خیال تھا کہ گھر میں رہنے والے سبھی لوگ بی جی کے بچے ہیں اور آپس میں بہن بھائی۔

گڑ بڑ یہ ہوئی کہ اِن بہن بھائیوں میں نو عمر پھوپھیوں کے علاوہ،اُن کی رشتے کی بھانجیاں اور بھانجے ہی نہیں ، میرے حقیقی ماں باپ بھی شامل تھے ۔ خوب یاد ہے کہ ماں کو بھابھی جی کہنے سے تو مجھے روک دیا گیا تھا ، مگر ابا کو بھائی جان کے طور پر مخاطب کرنے سے کسی نے منع نہ کیا ۔

وہ سب کے ’بھاجی‘ تھے ، جیسے یہ نام کی بجائے اُن کا رینک ہو ۔ زبان سیکھنے کے عمل میں اولین الفاظ شکلوں ، رنگوں اور رشتوں کی پہچان کیسے بنتے ہیں اور اِن کا اثر انسانی رویوں پہ کتنا گہرا ہوتا ہے ؟ ابا کے ساتھ اپنے مراسم کے اتار چڑھاؤ کو اگر مَیں انہی سوالوں کی روشنی میں دیکھوں تو اِس درجہ بدرجہ ارتقائی تجربہ کو سمجھنا اور اُس سے لطف اندوز ہونا اور آسان ہوجاتا ہے۔ اسی لئے تو کہا ہے کہ ابا ساڈا ودھیا سی ، مگر تعلق بھائی بندی کا تھا ، جس میں رعب ملی بے تکلفی تھی اور نازک سی کھِچ بازی بھی۔

چنانچہ اگر ابا کا قلمی خاکہ سالانہ خفیہ رپورٹ کے انداز میں لکھنے بیٹھوں تو چار بہنوں کے اِس اکلوتے بھائی کا ابتدائی تعارف ایک خوش شکل،جامہ زیب اور گرم جوش انسان کے طور پر ہوگا۔ اکلوتا پن اس لئے اہم ہے کہ سیالکوٹ کے قصباتی معاشرے میں ، جہاں گھر کی سماجی پہچان مردانہ آبادی کے حوالے سے ہوتی ، ہمارے ابا کی طرح دادا بھی اکیلے تھے کہ اُن کے واحد بھائی ، لالہ سائیں نے دُنیا چھوڑ چھاڑ کر سنیاس لے لیا تھا ۔ دادا نے بڑی بہن کے بیٹے ، تین بیٹیوں اور اُن کی اولاد کو ہمیشہ عزیز جانا ۔

پھر بھی گمان ہے کہ ہمارے ابا کی طبیعت میں انسان دوستی،خاندان سے لگاؤ اور دوستوں کی چاہت کے پیچھے بچپن کی تنہائی کو ضرور دخل ہو گا۔یہی احساس میرے ساتھ اُن کے قریبی تعلق کا پیش خیمہ بنا ، مگر تب تک ہم اسٹیشن والا مکان چھوڑ کر اپنے آبائی محلے ، ٹبہ سیداں میں واپس آ چکے تھے۔

اگلی بات پڑھ کر لوگ مجھے جعلی نفسیات دانی کا طعنہ دیں گے یا کہیں گے کہ بے حیا آدمی ، ابا کا ذہنی تجزیہ کرتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہئے۔مَیں تپ کر کہوں گا ’’ابا ہو گا آپ کا، ہمارا تو یار دوست تھا‘‘۔ ویسے کوئی شرمندگی کی بات بھی نہیں، کیونکہ انہی دنوں دادی نے مجھے ’’میری کہانی‘‘ سنائی تھی۔

’’پاکستان بننے سے پہلے تمہارے چاچا منیر احمد نے چار سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا تھا کہ دو دن بیمار رہ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ تمارے ’بھاجی‘ آج تک اِس غم کو نہیں بھولے ۔ منیر ایک تمیز دار بچہ تھا جسے تمہاری پیدائش سے پہلے مَیں نے خواب میں دیکھا تو کہہ رہا تھا کہ بی جی مَیں ہیٹھلے (نشیبی) محلے چلیا واں ، آ جاواں گا ۔

تونہہ ہوئیا تے اسیں سمجھیا ساڈا منیر آ گیا وے ، تائیں تیرا ناں منیر رکھیا سی ‘‘ ۔ اب آپ ہی حساب لگائیں کہ میری قربت دادی کے احساسِ محرومی کا نتیجہ ہے یا ابا کے کامپلیکس کا۔

منیر میاں چار سال کی عمر میں اگلے جہاں چلے گئے تھے ۔ پتا نہیں کیوں مَیں نے اپنی کمسنی میں والد کو یہ کہتے سنا کہ بچہ چار سال کا ہو جائے تو پھر اُس سے باتیں کرنے کا مزا آتا ہے ۔ اُنہیں یہ مزا اِس سے پہلے ہی آنے لگا تھا۔

اسی لئے تو ہر دوسرے تیسرے دن مجھے خود نہلا دھلا کر بالوں میں کنگھی کرتے ، اچھے کپڑے پہناتے اور اپنے ساتھ گھمانے لے جاتے ۔ راستے میں عجیب طرح کے ڈائیلاگ ہوتے ۔ مَیں پوچھتا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ ’’ گائے ہے‘‘ ۔ ’’یہ کہاں رہتی ہے؟‘‘ ’’ اپنے گھر میں رہتی ہے‘‘ ۔

’’اِس کے بچے کہاں ہیں؟‘‘ ’’اِس کے بچے گھر پہ ہیں‘‘ ۔ ’’ یہاں کیوں آئی ہے؟‘‘ ’’یہ گھاس چرنے آئی ہے‘‘ ۔ ’’یہ اپنے گھر کب جائے گی؟‘‘ ’’ شام کو گھر جائے گی‘‘ ۔

گائے تو شام کو گھر پہنچ ہی جاتی ہوگی ، لیکن ہم باپ بیٹا گھر سے نکل کر کہاں کہاں گھومتے؟یہ بیانیہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

اول نمبر پہ ہے کانلے پارک ، جسے اب جناح سٹیڈیم کہتے ہیں ۔ یہ سُن کر آپ کی ہنسی نکل جائے گی کہ مجھے یہاں بھارتی ٹیم اور پاکستان کی پنجاب الیون کے درمیان تین روزہ کرکٹ میچ دیکھنے کا اتفاق اُس وقت ہوا تھا جب ، ایک محتاط اندازے کے مطابق ، میری عمر سوا دو سال سے چند دن اوپر ہو گی ۔

یہ کہنے میں کہ میچ ’دیکھا‘ گپ کا عنصر شامل ہے ۔ اِس لئے کہ ابا کے ساتھ پیویلین سے ذرا آگے ایک کرسی پہ بیٹھے رہنا تو یاد ہے ، مگر سفید کپڑوں والے آدمیوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھ کر سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں تکلیف کیا ہے ۔

کئی سال بعد ابا نے بتایا کہ اُن کے ایما پہ مَیں نے اُس روز مایہ ناز وکٹ کیپر امتیاز احمد سے ہاتھ ملایا تھا،جبکہ پرانے سیالکوٹی کھلاڑی خواجہ شفیع ’بوتل‘ نے بھارتی پلیئر منکڈ کو جھاڑ پلائی تھی کہ ’’تُسیں جمیں نئیں سو جدوں اسیں کرکٹ کھیڈنے ساں‘‘۔

اِن اسٹل پکچرز کے بعد ابا سے دوستی کی متحرک فلم کا سلسلہ میری بہن کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے جب میری دادی اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کان میں کہہ گئی تھیں ’’اللہ نے ساہنوں کاکی دتی اے‘‘ ۔

اِس فلم کا منظر نامہ آگے چل کر کسی نہ کسی ریستوران کی فضا میں کھُلے گا ۔ جیسے امیلیا ہوٹل، گرین کیفے یا ملک سوڈا واٹر۔ابا آرڈنینس کلودنگ فیکٹری میں ایک درمیانے انتظامی عہدے پہ تھے ۔

اِس لئے سیالکوٹ کینٹ میں ’آفیسر شاپ ‘ کے نام کی سی ایس ڈی ، غلام قادر کے ڈپارٹمنٹل اسٹور اور ماؤنٹ ویو ہوٹل کا چکر بھی لگتا جہاں قیام و طعام کی سہولتیں لاہور کے فلیٹی اور راولپنڈی کے فلیش مین جیسی تھیں ۔

پھر بھی ولایتی ٹافیوں کی جو خوشبو امیلیا کی ڈیوڑھی کے اندر آغا کی دکان میں پھیلی ہوتی ، اُس کا جواب نہیں ۔ میرے شعور میں سکول داخل ہونے سے پہلے کی یہی نشہ آور مہک اپنے بتیس سالہ والد کے وجود سے جڑی ہوئی ہے ۔ (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).