ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا غلط استعمال بند کیا جائے


اگر کوئی بھی ذی شعور شخص کسی تعصب کے بغیر غیر جانبداری سے تجزیہ کرے تو وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ اس وقت برصغیر کے پورے میڈیا اور فلم انڈسٹری میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے زیادہ ٹیلنٹڈ اور باصلاحیت شخص کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی ہیں، ماسٹرز ہیں اور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ وہ خود بتائیں تو بتائیں، ان کا پروگرام دیکھ کر ہم کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ پروگرام میں چاہے عالم کا رول ادا کرنا ہو، نعت خواں کا، اینٹرٹینر کا، اینکر کا یا مجاہد کا، وہ ہر رول میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ نوجوانوں کا پروگرام ہو تو وہ نوجوان لگتے ہیں، بچوں کا پروگرام ہو تو وہ بچے لگتے ہیں، علما کا پروگرام ہو تو عالم، انعامی شو ہو تو نیلام گھر کا بولی لگانے والا، اور خواتین کا شو ہو تو پھر بھی وہ اپنا رول نبھا جاتے ہیں۔ میڈیا میں اور کون ایسا ہے جو یہ سب کر سکے؟

اس سے پہلے ایک فلم میں بیک وقت کئی کردار ادا کرنے کے معاملے میں صرف سنجیو کمار ہی مشہور ہو پائے تھے۔ انہوں نے 1974 میں بننے والی فلم ”نیا دن نئی رات میں“ نو مختلف کردار ادا کیے تھے۔ فلم میں سنجیو کمار نے ایک رنڈوے، قحبہ خانے کے مخمور گاہک، پاگل خانے کے نیم پاگل ڈاکٹر، قاتل، زمانے کے ٹھکرائے ہوئے جذام زدہ امیر آدمی، خواجہ سرا آرٹسٹ، شیر کو مار ڈالنے والے تھانیدار، فلم کے رومانی ہیرو اور ایک ایسے جرائم پیشہ شخص کا کردار ادا کیا تھا جو مذہبی عالم کا سوانگ رچائے ہوتا ہے۔ اس فلم میں پرفارمنس دکھانے پر سنجیو کمار کی بہت واہ واہ ہوئی تھی، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس سے کہیں بہتر پرفارمنس دیتے رہے ہیں لیکن ان کی تعریف کی بجائے حسد کی وجہ سے برائی کی جاتی ہے۔

لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا مالکان ایسے گوہرِ نایاب کا غلط استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے خود بتایا ہے کہ وہ ایک بہت نرم انسان ہیں لیکن ان سے جو چیزیں کہلوائی گئیں، وہ انہوں نے کہہ دیں اور وہ ان پر معذرت خواہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی معذرت قبول کی جانی چاہیے۔ پنجابی کی مثل ہے کہ نوکری کیا اور نخرہ کیا۔ ملازمت پیشہ شخص مجبور ہوتا ہے۔ اس کی اپنی مرضی کہاں ہوتی ہے کہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہہ سکے۔ وہ تو مالک کے اشارے پر سفید کو بھی سیاہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بال بچوں کا پیٹ پالنا بہت بڑی مجبوری ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی مجبور ہوں گے۔

اس سے پہلے وہ جیو میں ”عالم آن لائن“ جیسا بہترین پروگرام کیا کرتے تھے اور دین سے راہنمائی چاہنے والے تشنگان کی پیاس بجھاتے تھے۔ بڑے سے بڑا عالم ان کے ساتھ بیٹھتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اس پر چھا جاتی تھی۔ پھر میڈیا مالکان نے ڈیمانڈ کی کہ ڈاکٹر صاحب، رمضان کی نشریات بھی آپ سنبھال لیں تو انہوں نے تو نیکی سمجھ کر ہی یہ کیا تھا، اور غضب کیا تھا۔ حالانکہ اس پروگرام میں مالکان کے حکم پر ان کو مسخرے کا کردار ادا کرنا پڑا تھا مگر انہوں نے ایسی پرفارمنس دی کہ وہ میڈیا کی تاریخ کا مقبول ترین پروگرام ثابت ہوا۔ مالکان نے ڈاکٹر صاحب کو فرش پر لیٹ کر شرکا کو آم کھلانے پر بھی مجبور کیا کہ شاید اس طرح قوم کی نگاہ میں ان کا رتبہ گر جائے، مگر نہ صاحب، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ ڈاکٹر صاحب کی زبان سے ادا ہونے والا لازوال ڈائیلاگ ”آم کھائے گا آم“ اب اردو روزمرہ کا حصہ بن چکا ہے۔

فرشتہ سیرت ڈاکٹر صاحب تو نہایت نیک نیتی سے کوئی ادارہ جوائن کرتے ہیں۔ اب وہ ادارہ ہی بدکاری کا اڈہ نکل آئے تو ڈاکٹر صاحب کیا کریں۔ ڈاکٹر صاحب خاندانی آدمی ہیں۔ نمک حلال کرنے کو چپ رہتے ہیں۔ مالک کے ہر قسم کے احکامات مانتے ہیں۔ وہ سمگلنگ کرے، بدمعاشی کرے، جیل کاٹ چکا ہو، ملک کو بدنام کرے، یا ننگی فلمیں بنائے، ڈاکٹر صاحب منہ بند رکھتے ہیں کہ کوئی نمک حرامی کا طعنہ نہ دے۔ وہ ہمارے ازلی دشمن انڈیا کے اشاروں پر ناچے، تو بھی ڈاکٹر صاحب لحاظ کر جاتے ہیں۔ وہ کم ظرف نہیں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کا ضمیر اس سب پر خاموش رہتا ہے۔ جیسے ہی ملازمت کا طوق گلے سے اترتا ہے، وہ ان غلط لوگوں کے کردہ و ناکردہ اعمال کو قوم کے سامنے لے آتے ہیں۔

ہم میڈیا مالکان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا غلط استعمال بند کیا جائے۔ ان میڈیا مالکان کو ایسا کرتے ہوئے کچھ تو شرم کرنی چاہیے۔ ایک بندہ سادہ دل ہو، نمک حلال ہو، بے زبان ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے ایسے گھٹیا کام کروائے جائیں جو کرنے کے بعد وہ دنیا بھر سے معافیاں مانگتا پھرے۔ ڈاکٹر صاحب تو ملازمت کی آفر آتے ہی سر جھکا کر ویسے ہاں کر دیتے ہیں جیسے مشرقی لڑکیاں رشتہ آنے پر کرتی ہیں، اب اگر بعد میں دولہا ہی غلط نکلے تو نیک پروین کیا کرے؟


اسی بارے میں

عامر لیاقت حسین نے بول پر ٹویٹوں کی بوچھاڑ کر دی

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar