مولانا مودودی، پوپ اور قرار دادِ مقاصد


ہمیں  یہ الٹی منطق پڑھائی گئی ہے کہ ریاستی مقاصد ریاست کے وجود میں آنےسے پہلے نہیں بعد میں  طے  کئے جاتے ہیں اور الٹی منطق کا نام قراردادِ مقاصد ہے۔  ہر الٹی منطق کچھ ہتھیانے  کے لئے گھڑی جاتی ہے اور  یہ منطق بھی  اس اصول سے مستثنیٰ نہیں ۔ یہ منطق الٹی کیسے ہے ؟

 انسان کا ہر ارادی عمل کسی نہ کسی مقصد کے حصول کے لئے ہوتا ہے ۔ اس اصول کا اطلاق نہ صرف انفرادی اعمال  پر بلکہ  اجتماعی اعمال  اور (تحاریک) پر بھی ہوتا ہے۔مثال کے طور پر آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں تو  آپ کا مقصد رد کرنا ، قبول کرنا یا پھر دانشورانہ مشارکت پیدا کرنا ہوسکتا ہے ۔جب یہ مضمون پڑھنے کا کوئی مقصد ہے  تو  ہرگز  یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی تحریک کا آغاز ہو ،  وہ تحریک نکتہ عروج پر پہنچے ، نتائج مرتب کرے  لیکن  اس کے مقاصد  کا تعین بعد میں کیا جائے  ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ حقیقی مقاصد کا تعین وہ لوگ کریں جو ایک عمل کی  مخالفت کررہے ہوں۔  یہ اصول ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحریک ِ پاکستان کا بھی ایک مقصد تھا اور اس  مقصد کا اظہار  محمد علی جناح کی تشکیل کردہ پہلی کابینہ سے ہوتا تھا جس میں  غیر مسلم پاکستانیوں کو بھرپور نمائندگی حاصل تھی اور انہیں اہم امور کے قلم دان سونپے گئے تھے ۔

اس کے برعکس اگر  ہم  یہ  مان لیں کہ قیامِ پاکستان کے  مقاصد وہ تھے  جو  بعد میں ان لوگوں پر الہام ہوئے جو  پہلے پہل تحریک کی مخالفت کررہے تھے تو اس کا سیدھا سادھا  مطلب یہ نکلتا ہے کہ جدوجہد پاکستان  ایک غیر ارادی اور لغو فعل  تھا،  اس میں شریک   لوگ  دراصل دیوانے تھے  جو محض چہل قدمی کرنے کے لئے  نکل پڑے  ۔  اس لئے ضروری تھا کہ ان کے بے مقصد عمل کے نتیجے میں جنم لینے والی   ریاست کو الوہی مقاصد کی چولی پہنائی جائے  ۔ اگر یہ سب  من و عن تسلیم کرلیا جائے تو  قرار دادِ مقاصد تحریک پاکستان،  محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کوغیر متعلقہ افراد  میں بدل دیتی ہے ۔ ایسے لوگ جو  بس چلنے کے لئے چل نکلے تھے ۔ ان  کی نگاہ میں نہ راہ تھی نہ منزل  ۔

  12 مارچ 1949کے روز  پاس ہونے والی اس قرار داد کی  پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جمہوریہ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان پڑ گیا اور نومولود ریاست  کی بنیاد ریاستی مذہب کے  نظریے  پر رکھ دی گئی۔یاد رہے کہ یہ وہ دور تھا جب ریاستی مذہب کے نظریے  اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد سے  تائب ہوکر   دنیا میں عوامی و فلاحی اور جمہوری  ریاستیں قائم ہورہی تھیں جبکہ  پاکستان  میں  مُلا شاہی کی بنیاد رکھ دی گئی ۔

یہ سب کیسے ہوا ؟ اچانک یا پھر یہ  حادثہ بھی وقت کے بطن میں برسوں  پرورش پاتا رہا ۔اس یوٹرن کے لئے زمین کس نے ہموار کی تھی ؟

روبینہ سہگل کہتی ہیں کہ  قرار داد کے نتیجے میں  بانی پاکستان محمد علی ٰ جناح کی سیکولر ریاست کے خواب اور عوامی اقتدار ِ اعلی ٰکے جمہوری تصور کی جگہ مولانا مودودی کے  خُدائی اقتدار ِ اعلیٰ   (divine sovereignty)  کے تصور نے لے لی ۔

اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ  مولانا مودودی نے قرار داد کو ‘برسات’ کہا لیکن نہ انہیں ‘بادل’ دکھائی دیے اور نہ ہی برسات کے بعد وہ ‘ہریالی’ جس کی وہ تمنا کررہے تھے ۔ تاہم ‘بادل، برسات اور ہریالی ’ جیسے خوشگوار نے  اشاروں   یہ قلعی ضرور کھول دی  کہ  قرارداد انہیں کی شبانہ روز قلمی و معاشرتی  کاوشوں کا ثمر تھی ۔ تاہم جو گھن گرج اور ہریالی وہ دیکھنا چاہتے تھے  وہ  ضیا الحق کے مارشل کے ساتھ 1977  سے  شروع ہوئی  اور 1979  میں مولانا اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

  پاکستان میں مذہبی جنونیت کا باپ ضیا الحق کو کہا جاتا ہے لیکن گذشتہ کئی دہائیوں سے جماعت اسلامی کا گہرا مطالعہ کرنے والے  بین الاقوامی شہرت کے حامل سیاسیات دان ڈاکٹر ولی نصر (1960 ) کہتے ہیں ‘  نو مودودی نو ضیا ’ ۔ ان کے مطابق اگر پاکستان میں مولانا مودودی کے تصورات کی زمین ہموار نہ ہوتی تو ضیا الحق  پاکستانی اذہان میں وسیع پیمانے پر تباہی کا بیج کبھی نہ بو سکتا  ۔یہ زمین ضیا سے قبل تیار ہوچکی تھی اور صورتِ حال اس حد تک  بگڑ چکی تھی کہ بھٹو  جیسا شخص بھی   مذہبی سیاست دانوں کو خوش کرنے کے لئے   اقلیتوں کا گھیرا تنگ کرچکا تھا ۔

 ولی نصر کہتے ہیں کہ قرارِ دادِ مقاصد پاس کرانے سے لے کر 1970 کی دہائی کے خاتمے تک  جماعت اسلامی  لوگوں  سے یہ منوا چکی تھی کہ مولانا مودودی کے پیش کردہ  اسلام کے پاس ہر اُس مسئلے کا حل ہے  جس  کا پاکستان  سمیت  پوری دنیا کو سامنا ہے۔ان خیالات کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی ہیت مقتدرہ کا خیال تھا کہ ایسی حکومت جو جماعت اسلامی کے  عام  کردہ نعروں  پر عمل پیرا ہوگی ضرور کامیاب ہوگی۔

ضیا کے برسر اقتدار آنے سے قبل اور فورا ً دنیا میں چار  بڑے واقعات پیش آئے : 1973 میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو شکست ہوئی، عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں  بے پناہ اضافہ ہوا۔ فروری 1979 میں انقلابِ ایران رونما ہوا۔ دسمبر 19979 میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ ان واقعات نے پوری دنیا میں ہلچل مچادی لیکن  ان  کے تمام تر  منفی او ر تباہ کن اثرات  کے   سیلابِ بلا  نے ہمارا گھر دیکھ لیا ۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ  ان تباہ کن اثرات کے لئے زمین یہاں پہلے سے ہموار  تھی اور  پاکستان کی  نظری منڈی میں رائج الوقت سکہ وہی تھا جس کا پہلا چیک قراردادِ مقاصد کے روپ میں کیش ہوا ۔

عام طور پر جماعتِ اسلامی کی  عام انتخابات میں  ناکامی پر یہ تبصرہ کیا جاتا ہے کہ لوگ مذہبی جماعتوں پر اعتماد نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ  رائے عامہ کی  ڈو ر مذہبی جماعتوں ، خاص طور پر جماعت اسلامی ، کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان میں لوگوں کی خطرناک حد تک بڑی تعداد دنیا  میں پیش آنے والے ہر واقعے کو انہی جماعتوں کی آنکھ سے دیکھتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتیں لوگوں کو ترقیاتی   یا نظریاتی عدسہ دینے میں ناکام ہوچکی ہے  جس کی مدد سے  لوگ  پاکستان اور باقی دنیا میں ہونے والے واقعات  کو سمجھ سکیں۔ یہ طاقت  بالعموم مذہبی جماعتوں اور بالخصوص جماعت اسلامی کو حاصل ہے ۔ یہ طاقت انتخابات جیتنے  کی طاقت سے بھی بڑی طاقت ہے کیونکہ انتخابات جیت کر آپ حکومت بنا سکتے ہیں کہ مذکورہ طاقت کی مدد سے آپ حکومتوں  کو  گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہیں  ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل طاقت اسی کے پاس ہوتی ہے جیسے واقعات کی تشریح کا حق حاصل ہو ۔

حالیہ دور میں ملالہ کا واقعہ  ہی لے لیں ۔جماعت کا قلم اور زبان حرکت میں آنے سے پہلے چند گھنٹوں تک  ہر آنکھ ملالہ کے لئے تر تھی  اور پھر وہ آج تک ہر آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔ جماعت نہ ہوتی تو یہ سبق ہمیں کون سکھاتا کہ ہمارا ہیرو صرف وہی ہوسکتا ہے جو پوری دُنیا کو سنگین جرائم کی پاداش میں مطلوب ہو ۔ دُنیا  بھر سے داد اور  ایوارڈز سمیٹنے  والے  (خواہ وہ ملالہ ہو یا  پھر شرمین عبید چنائی ) کبھی ہمارے  ہیرو نہیں ہوسکتے  ۔

جماعت کا اصل کام عالمی و مقامی واقعات کی معاندانہ  تعبیر عام کرنا  ہے  اور اس میں جماعت پوری طرح کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔ اسی لئے  ہماری گلیوں، محلوں ، چائے خانوں ،  دوراہوں  اور چوراہوں پر واقعات کو جماعتی عدسے  میں دیکھا جاتا ہے ۔ یہ جماعت کی سب سے بڑی فتح ہے  ۔ جماعت انتخابات میں کامیاب ہو یا نہ ہو ؛ لوگوں کی نظروں میں مقبول ہونے کے لئے ہیت مقتدرہ سے لے کر  ہر نئی سیاسی  جماعت کو  بیانیہ جماعت سے ہی مستعار لینا پڑتا ہے۔  موجودہ دور میں تحریکِ انصاف اس کی بہت بڑی مثال ہے۔

 المختصر، پاکستان میں  خُدا ئی اقتدار ِ اعلیٰ کا نظریہ پیش کرنے والی جماعت ہی تھی اور یہ رخنہ قرار دادِ مقاصد نے پیدا کیا ۔اس کے بعد اس تصور پر اتنا کام کیا گیا کہ کسی کو وہ بنیادی سوال پوچھنے کی  جرأت نہیں ہوسکی  جو الہٰیاتی  اقتدارِ اعلیٰ کے کلیسائی  تصور پر مغربی مفکرین نے پوچھا تھا  ۔

مغرب میں جب پوپ  زمین پر خدا کی حکمرانی کی بات کررہا تھا تو مغربی مفکرین اس سے یہ پوچھ رہے  تھے : کیا کلیسا یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ اقتدار حاصل ہونے کے بعد تخت پر پوپ نہیں، خدا بیٹھے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments