علامہ خادم رضوی، نبی کا دین اور تخت


2011 کی بات ہے۔ جب میں ٹین ایج میں تھا اور ملتان میں ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔ مذہبی وابستگی سر چڑھ کر بولتی تھی۔ جمعے کی نماز میں خطبہ سننے کے لئے ہمیشہ خطیب صاحب سے پہلے پہنچتا تھا۔

انہی دنوں گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ قاتل کون تھا؟ ممتاز قادری۔ قتل کیوں کیا؟ کیوں کہ وہ گستاخی رسول کا مرتکب ہوا تھا۔ میری وابستگی بریلوی مکتبہؑ فکر سے زیادہ تھی۔ ممتاز قادری کی یا اس قتل مخالفت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ وہ سبھی کا ہیرو تھا جس نے ایک ”گستاخ“ کو اس کے انجام تک پہنچایا تھا۔

لیکن میں اس معاملے میں کشمکش کا شکار تھا۔ کچھ سوال تھے جو میرے ذہن میں ابھرتے تھے لیکن ان سوالات کا جواب مجھے نہ مل سکا۔ وہ خطیب صاحب جن سے مجھے بہت عقیدت تھی اور جن کی ہر تقریر میں بڑے اہتمام سے اور بڑے انہماک سے سنتا تھا ان سے بھی مجھے تسلی بخش جواب نہ مل سکے۔ وہ سوالات آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔

گستاخی کا فیصلہ کیسے ہو گا؟ یہ تعین کیسے ہو گا اور کون کرے گا کہ کون سی بات گستاخی ہے اور کون سی بات نہیں؟ کیا ہر ایک کو اپنی فراست استعمال کرنے کی آزادی ہے کہ وہ فیصلہ کرتا پھرے کہ فلاں بات گستاخی کے زمرے میں آتی ہے اور فلاں چیز نہیں؟ یا اس کا کوئی اور طریقہ ہو گا؟

اور پھر یہ کہ جب تعین ہو گیا کہ فلاں شخص نے جو بات کی ہے وہ گستاخی کے زمرے میں آتی ہے اور یوں فلاں شخص گستاخی کا مرتکب قرار پاتا ہے، تو اس کے بعد اس کو سزا دینے کا حق یا ذمہ کس کا ہے؟ کیا کوئی بھی شخص اس کو موت کے گھاٹ اتار دے؟ یا اس کے لئے مہذہب معاشروں جیسا کوئی اور طریقہ اپنانا چاہیے؟

یہ وہ سوال تھے جو میرے لئے کنفیوژن کا سبب تھے۔

ایک مہذب معاشرہ۔ جہاں قواعد و ضوابط کی پابندی نظام زندگی کے درست اور رواں چلنے کے لئے ضروری ہو وہاں فیصلہ سنانے کا اور سزا دینے کا حق کسی بھی شخص کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟

میں اپنے جذباتی اور ناموس رسالت کے محافظ دوستوں کو کچھ سادہ مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔

میرا ایک شخص سے کچھ تنازعہ چل رہا ہے۔ میں کہتا ہوں اس نے فلاں بات کی ہے جو گستاخی کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں اس شخص کو قتل کر دیتا ہوں یا کروا دیتا ہوں۔ کیا میں ناموس رسالت کا چوکیدار اور مسلمانان پاکستان کا ہیرو بن گیا؟

ختم نبوت زندہ باد۔ ختم نبوت کا منکر کافر۔ گستاخ رسول کی صرف ایک سزا۔ اس کا سر تن سے جدا۔ لیکن اس سب کے باوجود۔ ممتاز قادری نے قانون کو ہاتھ میں تو لیا۔ اور بغیر قانونی اختیار و استحقاق کے کسی کو قتل کرنے کی سزا تو ایک مہذب معاشرہ دے گا ہی۔ ورنہ کل کو کوئی کسی پر کوئی جھوٹا سچا الزام لگا کر اسے قتل کر دے تو کون ذمہ دار ہے؟

میری مذہب سے وابستگی تو ہے لیکن میں مذہبی جنونی نہیں۔ میں اپنے ہوش و حواس میں رہ کر اپنے عقائد و نظریات کا تعین کروں گا۔ جذبات کی رو میں بہہ نہیں جاؤں گا۔ آخر میں ایک پڑھا لکھا، مہذب معاشرے کا فرد ہوں۔

اور میں، کسی کے لئے خوشگوار ہو یا ناگوار، علی الاعلان کہتا ہوں کہ ممتاز قادری کے حوالے سے جو فیصلہ ججز کا تھا بالکل مناسب فیصلہ تھا اور اگر میں ایک منصف ہوتا تو میں بھی یہی فیصلہ سناتا۔

علامہ حضرت خادم حسین رضوی نے ممتاز قادری کے معاملے پر خوب واویلا کیا۔ اس کی پھانسی کے بعد اس کی لاش کے قدموں میں اپنی پگڑی رکھ کر روئے۔ اس کی کرامات سناتے رہے۔ اس کو ایک مثال بنا کر پیش کرتے رہے۔ ممتاز قادری تو بچ نہیں سکا لیکن علامہ خادم رضوی امیر المجاہدین ضرور بن گئے۔

خادم رضوی صاحب میرے شہر احمد پور شرقیہ تشریف لائے تھے۔ میں ان کا خطاب سننے گیا تھا۔ بہت پر جوش مجمع تھا۔ لوگ زور زور سے لبیک یا رسول اللہ کے نعرے لگا رہے تھے۔ رسول اللہ کے نام پر مسلمان کیوں نہ کہیں کہ لبیک یعنی ہم حاضر ہیں۔ خادم رضوی صاحب نے کہا کہ لوگو، آج تم دعویٰ کرتے ہو کہ تم رسول اللہ کی ناموس کی حفاظت کے لئے اپنے بچے بھی قربان کر دو گے۔ او جھلے او تم لوگوں نے اپنے بچے دیے ہوتے تو آج ممتاز قادری شہید ہوتا؟ او تم نبیؐ کی حرمت کے لئے گردنیں کیا کٹواؤ گے تم تو میرے ساتھ مل کر اپنے خلاف ایک پرچہ نہ کٹوا سکے۔

خادم رضوی صاحب نے مزید فرمایا کہ چلو اچھا اب تو جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اب 2018 میں ہم الیکشن میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ اب 2018 میں ہمیں ووٹ دو۔ گردنیں نہ کٹوائیں، بچے نہ دیے، پرچے نہ کٹوائے، ممتاز قادری کو مرنے دیا چلو خیر۔ لیکن 2018 میں مجھے ووٹ دو۔ 2018 میں نبیؐ کے دین کو تخت پر بٹھا دو۔ اور قیامت کے روز رسول اللہ ﷺ کو کہہ دینا کہ اے اللہ کے رسولؐ ہم اور تو کچھ نہ کر سکے، لیکن 18 میں ووٹ کی ایک پرچی خادم رضوی کو دے آئے ہیں۔

اب وہاں مجھے گستاخی کرنے کے جرم میں مارے جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کھڑا ہو کر پوچھتا کہ جناب قبلہ امیر المجاہدین! ہمیں وہ سند تو دکھا دیں جو آپ اپنے ساتھ لائے ہیں کہ آپ ہی دراصل نبیؐ کا دین ہیں۔ یعنی اگر آپ کو ووٹ دیا تو سمجھو نبیؐ کے دین کو ووٹ دیا اور اگر آپ کو تخت پر بٹھایا تو دراصل نبیؐ کے دین کو تخت پر بٹھا دیا۔

ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔ یہاں جتنے بھی علامے، مولانے، حضرات و شیوخ و بزرگان ہیں سب ہی اپنے پاس نبیؐ کا دین ہونے کی سند رکھتے ہیں۔ کسی سے بھی پوچھ لیں، کسی کو بھی آپ تخت پر بٹھا دیں، سمجھ لیں کہ آپ نے نبیؐ کے دین کو تخت پر بٹھا دیا ہے۔

محمد علی، احمد پور شرقیہ

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).