کیا تاریخ میں نظریہء ضرورت ہی چلے گا؟


ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہم نے جو تاریخ نصاب میں پڑھی ہے وہ حقیقی تاریخ سے کافی مختلف ہے۔ بچپن میں پڑھی گئی تاریخ جب ذہن میں ابھر آتی ہے تو وہ بس افنسانوی قصہ لگتی ہے مگر حقیقی تاریخ جاننے کے لیے تاریخ کی کتب بینی ضروری ہو جاتی ہے۔ کئی ایسے حقائق ہیں جنہیں مسخ کرکے پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح قائد اعظم کے حوالے سے بھی کئی سچ ایسے ہیں جنہیں لوگوں میں عام ہی نہیں کیا گیا۔

بس اب یہی ایک چیز رہ گئی ہے کہ مزار قائد اعظم کو باپردہ کر دیا جائے۔ قائداعظم کے بارے میں بچپن کی پہلی جماعت میں ہم نے جو پڑھا تھا وہ تو شکر ہے کہ ہمارے بچوں نے نہیں پڑھا، ورنہ وہ اس تاریخی تبدیلی کا ہم سے سوال ضرور کرتے کہ قائد اعظم ٹھٹہ ضلع کے دریائے سندھ پر آباد ایک شہر ”جھرک“ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے جد امجد آغا حسن علی اپنے ایک ہزار آغا خانیوں کے ساتھ جھرک میں آ کر آباد ہوئے تھے

یا یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح صاحب بچپن میں محمد علی جینا بھائی تھے۔ اب وہ تو حُسن اتفاق ہی ہے کہ اسی وقت جھرک میں پونجا نام کی دو شخصیات رہتی تھیں، جن میں ہمارے قائد کے والد پونجا صاحب کے بات کرنے کا لہجہ بہت دھیما تھا۔ جسے سندھی میں( جھیٹو) کہتے ہیں جھیٹو سے جھینا اور جھینا سے جناح میں تبدیل ہو گئے۔

پانچویں جماعت تک ہمارے قائد اپنے آبائی گاؤں جھرک میں پڑھتے رہے۔ ان کی مادری زبان کھوجکی تھی۔ جھرک میں سب آغا خانی کھوجکی گجراتی، کچھی اور سندھی زبان بولتے تھے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ قائداعظم جھرک میں پیدا ہوئے یا کراچی کی وزیر مینشن میں پیدا ہوئے یا یہ کہ وزیر مینشن کو 1953 میں رنگ روغن کروا کر محترمہ فاطمہ جناح سے افتتاح کروانے کی کوشش کر کے وزیر مینشن ان کے حوالےکرنے کی کوشش بھی کی گئی، تو محترمہ جناح نے انکار کر دیا کہ یہ ہماری جگہ نہیں ہے اور پھر ان کی بہن شیریں جناح کو کہا گیا تو انہوں نے بھی انکار کر دیا۔

یہ تو ایسی بات ہی نہیں کہ ہمارے تاریخ دان فرماتے ہیں کہ قائد اعظم کی ولادت کی اصل جگہ جھرک کو تبدیل کر کے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ایسا کیا بھی گیا ہوگا تو ضرور کسی ”نظریہء ضرورت“ کے تحت کیا گیا ہوگا۔

ضیاءالحق اور پھر مشرف کے دؤر اقتدار میں نظریہ ضرورت کی ایسی کی تیسی کی گئی۔ نظریہ ضرورت کے تحت آئین میں کئی تبدیلیان کی گئیں اور جو جی میں آیا اس میں شامل کر دیا گیا یا جو جی میں آیا وہ نکال دیا گیا، یہاں تک بھی کہا گیا کہ آئین فقط ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ ہمارے ایک بہت بڑے تاریخ دان اور محقق سابق وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی جامشورو جی اے الانہ صاحب، جو آغا خانی خواجہ ہیں، ان کو پتا نہیں کیا سوجھی جو سندھ مدرستہ الاسلام کراچی جا پنہچے اور داخلہ رجسٹر میں درج تاریخ پیداش کی تصدیق کر آئے کہ قائد اعظم کی اصل تاریخ پیدائش 20 اکتوبر ہے۔

ہمارے ہاں پٹواری انتقال زمین کی کتاب میں زمین کی پوری تفصیل کا پورا اندراج کرنے کے بعد نیچے چھوٹے سے حروف میں تین حرفی نوٹ ڈال دیتے ہیں ( بھل چک معاف) اس کا مطلب ہوتا ہے کہ غلطی وغیرہ ہو گئی ہو تو معاف کر دی جائے۔ اس داخلہ رجسٹر میں قائد اعظم کی تاریخ ولادت لکھنے میں بھی نظریہء ضرورت کے تحت غلطی کی گنجائش تو نکل سکتی ہے یا یہ کہ کیا ضرورت تھی کہ قائد اعظم کے حوالے سے انیس سو پینسٹھ کو ان کے وکیل مداحوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا، لیکن ان کی پیدائش کے حوالے سے حقائق چھپائے گئے ہیں کہ وہ جھرک میں نہیں بلکہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی تاریخ پیدائش پچیس دسمبر نہیں بلکہ بیس اکتوبر تھی۔

اب اتنی سی بات پر اس وقت کے صدر ایوب خان نے کمشنر مسرور حسن کو حکم دیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے۔ کمشنر صاحب جب جھرک پنہچے اور اپنی تحقیقات مکمل کر لی تو جھرک کے ایک رٹائرڈ اسکول ماسٹر عبداللہ خان سموں نے پرائمری اسکول کے داخلہ کا رجسٹرڈ کمشنر صاحب کے حوالے کیا جس میں ان کی تاریخ پیدائش بیس اکتوبر درج تھی۔ کمشنر بہت سمجھدار تھے کہ اگر وہ رجسٹر ظاہر کیا گیا تو تاریخ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے وہ رجسٹر بھی نظریہء ضرورت کے تحت حمود الرحمان کمیشن، لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کی طرح ہوا میں گم ہو گیا۔

قائداعظم کے ہاں پندرہ اگست انیس سو انیس کو ایک بیٹی دینا پیدا ہوئی تھی، جس نے ایک پارسی سے شادی کی تھی۔ دینا واڈیا کا حالیہ دنوں میں اٹھانوے سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے۔ بانی پاکستان کی بیٹی کے انتقال پر یقینن پاکستانی بہت سوگوار ہوئے ہیں لیکن ان کے ایصال ثواب کے خاطر نہ کوئی دعائیہ تقریب کی گئی نہ ہی کوئی موم بتی جلا کر قائد کی بیٹی کے حوالے سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وہ قائد اعظم اور بانی پاکستان کی اکلوتی بیٹی تھی جس کو اپنے والد کی قبر کے برابر دو گز زمین کا ٹکڑا اگر نہ ملا یہ تو اس کے نصیب کی بات ہے کہ جسم خاکی کو انتقال کے بعد دفن ہونے کہ لیے زمین کہاں نصیب ہوتی ہے۔

تدفین کے حوالے سے تو محترمہ فاطمہ جناح کی تدفین بھی حکومت وقت کے حوالے سے متنازع رہی تھی مگر پھر کسی مصلحت کے تحت انہیں قائداعظم کے برابر میں دفن کیا گیا۔ ورنہ فیصلہ تو یہ ہو چکا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو پرانے میوہ شاہ قبرستان میں دفن کیا جائے۔ اب اس بات سے بھی کسی کو کیا لینا دینا کہ پاکستان بننے کے اٹھارہ ماہ تک پاکستان کا قومی ترانہ جوکہ لاہور کے جگن ناتھ آزاد جو بہت اچھے شاعر تھے، ان کا کا لکھا ہوا تھا۔ ”اے سر زمین پاک ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک، اے سر زمین پاک“۔

یقینن انیس سو پچاس میں نظریہء ضرورت کے تحت اس کو تبدیل کیا گیا ہوگا اور ایک کمیٹی کے ذریعے حفیظ جالندھری کا لکھا ہوا اردو کی بجائے فارسی میں لکھا ہوا ترانہ ”پاک سر زمین شاد باد“ منظور کر لیا گیا۔ ہاں ایک بات حیران کن ضرور ہے کہ ہندستان کا ایک قومی گیت“ سارے جہاں سی اچھا ہے ہے ہندستان ہمارا“ جو ابھی بھی ان کا قومی گیت ہے علامہ اقبال کا لکھا ہوا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جو پہلی اسمبلی بنی اس میں فقط تریپن ارکان اسمبلی تھے جن میں تیرہ غیر مسلم تھے جو تقریبن پچیس فیصد ہوتے ہیں، جس اسمبلی میں جوگندر ناتھ منڈل اور لالہ نارائن بھی شامل تھے۔ اس تناسب سے اگر ہم سادہ سا حساب بھی لگائی تو حالیہ اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی فقط پانچ فیصد بھی نہیں بنتی۔ اقلیتوں کے حوالے سے قائد اعظم کے جو بھی نظریات یا خیالات رہے وہ ان کی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی تقریر میں واضح ہیں۔ جس میں انہوں نے فرمایا کہ آب آپ مملکت پاکستان میں آزاد ہیں، آپ اپنی اپنی عبادت گاہوں کو جائیں، ریاست کا کسی کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محترمہ شمائلہ جعفری بی بی سی اردو میں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ جب مرتضیٰ سولنگی صاحب ریڈیو پاکستان کے ڈاریکٹر تھے تو اس نے قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی وہ تقریر تلاش کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ وہ تقریر ادارے کے لاکھوں منٹ کے آڈیو آرکائیو کی رکارڈنگ سے غائب ہے۔ شاید وہ بھی کسی ”مرد مومن“ نے اپنے نظریہء ضرورت کے تحت تلف کرا دی ہو۔

کیونکہ اس مرد مجاہد نے پاکستان کو مکمل اسلامی ریاست بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس لیے جہاں بھی قائداعظم کے سیکیولر ہونے کا نشان ملتا وہاں ثبوت غائب کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہوگی۔ ویسی ہی ایک کوشش محترمہ فاطمہ جناح کی لکھی ہوئی کتاب ”مائی برادر“ میں سے کچھ حصے حذف کر کے کی گئی۔ پرویز ہود بھائی ایک جگہ لکھتے ہیں ”آپ اقلیتوں کی بات کرتے ہیں، کیا آپ کو اقلیتوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں، ہمارے ہاں پاکستان میں اقلیتوں میں ہندؤوں کی بڑی تعداد سندھ کے مشرقی علاقوں میں ملے گی یا عیسائی، سکھ یا قادیانیوں کو بھی اگر آپ اقلیت میں مان لیتے ہیں اور کچھ پارسی بودہ وغیرہ ہیں، تو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ جن کو ہم اقلیت کے طور مانتے ہیں، ہمارے دین اسلام کے تحت اور ہماری ریاست کے آئین اور قانون کے تحت ان کو جو حقوق دیے گئے ہیں۔ کیا ہم نے وہ حقوق ان کو دیے بھی ہیں؟ “

قائد اعظم کی شخصیت کے گم شدہ ابواب ان کے نظریات کو کوئی کتنا بھی تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر تاریخ میں ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ پاکستان کن خطوط اور نظریات پر بنا تھا۔ بہرکیف آج بھی کسی نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان میں کوئی غیر فطری تبدیلی کی خواہش ہے تو رب راکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).