لوگوں کو ان کی حدود میں کیسے رکھا جائے؟


سب سیانے لوگ یہی بتاتے ہیں کہ لوگوں کو ان کی حدود میں رکھنا چاہیے۔ لوگوں کے ساتھ شروع دن سے حد مقرر کر لینا چاہیے اور انہیں صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ یہاں سے میری حدود شروع ہو رہی ہیں۔

مجھے اپنی اصل زندگی میں کوئی مسئلہ ہو تو بس میں سیدھے سیدھے گوروں کی لکھی کوئی سیلف ہیلپ بک یا آرٹیکل پڑھ لیتی ہوں۔ انہوں نے ایک تو ادھر ادھر کی باتیں کم کی ہوتی ہیں دوسرے جس مسئلے پر بھی لکھا ہوتا ہے کچھ نہ کچھ تحقیق کر کے ہی لکھا ہوتا ہے یا ”ہم سب“ کے ساتھیوں کی باتوں کو پلو سے باندھ لیتی ہوں۔

ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اصل زندگی میں کسی شعبے سے منسلک ہوں نہ ہوں، آپ کو مشورہ دینے کے لئے وہ طبیب بھی ہوتے ہیں، وکیل بھی ہوتے ہیں، کسی صحافی کی طرح کرید کے ماہر بھی ہوتے ہیں اور جج بھی ہوتے ہیں۔ اسلام آباد ذرا چھوٹا شہر ہے تو یہاں ہر کوئی ایک دوسرے سے واقف ہے، یہاں تک کہ ایک ان دیکھے شخص نے بھی دوسرے کے متعلق کچھ نہ کچھ سن رکھا ہوتا ہے، ہاں یہ اور بات کہ اکثر باتیں چائینیز وہسپر کی گیم کی طرح، جس میں آپ ایک شخص کے کان میں ایک بات بتاتے ہو اور آخری کے منہ سے اس کی مڑی تڑی شکل سنتے ہو، بس اسی طرح مڑ تڑ چکی ہوتی ہیں۔

ہاں تو اپنی تمام تر مثبت سوچوں، بیشتر چیزوں کو سمجھ سکنے، ان کا تجزیہ کرنے اور نچوڑ نکال سکنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود میرا بیشتر وقت لوگوں کی حدود مقرر کرنے میں گزر جاتا ہے۔ مثلا کوئی ایسا موضوع جس کے بارے میں میں بات نہیں کرنا چاہتی، یہ بات لوگوں کو کیسے باور کروائی جائے؟

اچھا سب سے پہلے تو وہ بات ہو ہی ایسی کہ کوئی بھی دانشمند شخص یہ جانچنے کی اہلیت رکھتا ہو گا کہ اس بارے میں بات کرنا صائب ہے یا نہیں۔ اس کے باوجود۔ ۔ ۔ ۔

خاتون : میں آپ سے اس موضوع کے بارے میں کریدنا چاہتی تھی، اگرچہ میں پورے شہر سے اس بارے میں پوچھ چکی ہوں۔
میں : یہ چائے لیجیے ساتھ میں بسکٹ بھی۔

خاتون : ارے آپ نے بتایا نہیں کہ جو میں جانتی ہوں اس سے آگے مزید کیا ہے آپ کے پاس مجھے بتانے کے لئے؟ کون سا ایسا چٹ پٹا رخ ہے اس بات کا جو میں نے نہیں سنا؟
میں : میں ذرا دیکھ کر آوں کہ میری بیٹی نے ہوم ورک کر لیا ہے یا نہیں۔

خاتون : ارے بیٹھ جائیے آپ اس لئے جا رہی ہیں نا کہ یہ موضوع ناگوار گزر رہا ہے آپ کو، دیکھیے آپ کو اس موضوع کے بارے میں ایسے نہیں سوچنا چاہیے۔
میں : میں ایک منٹ میں واپس آتی ہوں۔

خاتون : ہاں تو جب آپ گئیں تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ اس موضوع میں ایسا ناگوار تو کچھ بھی نہیں۔
میں : دیکھیے میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔ امید ہے آپ میری پسند کا احترام کریں گی۔

خاتون : ارے آپ اس موضوع کو اتنا جذباتی ہو کر محسوس کرتی ہیں، ارے یہ تو آپ کی ذاتی بات ہے مگر میرے نزدیک تو ایک عام سا موضوع ہے۔ آپ کو اس پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔
میں : دیکھیے میں جذباتی نہیں ہو رہی، میرے لئے یہ ایک ناپسندیدہ موضوع ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ ایک ناپسندیدہ یا ناگوار موضوع پر مجھے آپ سے بات کرنی چاہیے۔

خاتون: دیکھیے آپ کی ذات کے لئے اہمیت تو نہیں مگر شاید آپ کی صفائی والی کے لئے ہو یا آپ کی پڑوسن کے لئے ہو، کیا آپ نے کبھی اس طرح سوچا ہے؟
میں : دیکھیے اگر صفائی والی کے لئے ہو گی، تو وہ مجھے خود بتا سکتی ہے اور پڑوسن بھی، یہ آپ کا مسئلہ تو نہیں۔

خاتون : ارے میں تو آپ کی خیر خواہ ہوں، آپ کے مسائل میرے بھی تو ہیں۔
میں : جی میرے خیال میں تو نہیں ہیں۔

خاتون : دیکھیے یہ جو آپ کی زندگی کی ذاتی بات میں کریدنا چاہ رہی ہوں اس سے ملتی جلتی بات میری زندگی میں بھی ہے۔ میں تو اس کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہوں۔
میں : جی آپ آپ ہیں اور میں میں ہوں۔ میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔

خاتون: اگر آپ اس بارے میں بات کریں تو چند اور چٹ پٹی باتیں میرے پاس بھی ہیں آپ کو بتانے کے لئے۔
میں: (لا تعلق ہو کر ہوا میں گھورتے ہوئے خاموش)

خاتون: ارے آپ تو حساس بھی ہیں اور بد اخلاق بھی، آپ کو ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔
میں : اب مجھے اپنا کام کرنا ہے۔ آپ کے بچے آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

خاتون : ہاں میں جا رہی ہوں، وہ ایک دوسری خاتون کل آپ سے ملنے آئیں گی۔ شاید آپ ان سے اس بارے میں کھل کر بات کر سکیں۔
میں گوگل سرچ پر لکھتے ہوئے: لوگوں کو ان کی حدود میں کیسے رکھا جائے؟
گوگل سرچ : انہیں صاف صاف بتا دیجیے کہ میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim