پھولوں کا شہر پشاور پھر سے پھولوں کا شہر بن رہا ہے


مغلیہ دور میں ” پھولوں کا شہر “ کہلانے والا پشاور پھر سے پھولوں کو شہر بننے کی جانب گامزن ہوگیا ہے۔ جس کا کریڈیٹ صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ پشاور کے عوام کو جاتا ہے۔ جن کےصبر کے بعد شہر میں تھوڑا بہت آمن قائم ہوگیا ہے۔ دہشت گردی اور عسکریت پسندی نے اس پشاور شہر کی خوبصورتی کو ماند کردیا تھا۔ اس شہر نے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے ہر دن پشاور شہرمیں بارود کی بو سونگھی جس سے شہر دھواں دھواں ہوتا گیا۔ ہسپتالوں میں چیخ وپکار اور بم بلاسٹ کی جگہ پر انسانیت کی تذلیل انسانی اعضا کے ٹکڑوں کی صورت میں دیکھی گئی، اس کے بعد میڈیا پر اعلانات کہ ہم مذید کارروائیاں کریں گے یعنی مذید انسانیت کی تذلیل کریں گے مگر اب وہی شہر پھر سے اپنی رعنائیوں کی جانب لوٹ رہا ہے۔ جس میں اچھے اچھے ریسٹورنٹ اور شاپنگ برانڈ آ کر تجارت کر رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں میں بہت تبدیلی نظر میں آئی۔ جو کہ پشاور کا خاصہ تھا مگر جو روایتی چیزیں تھیں اس کا خاتمہ ہورہا ہے۔ اب قصہ خوانی میں وہ قصہ گو نہیں ہیں۔ اب وہ چوبارے نہیں رہے اب وہ لوگ نہیں رہے۔ جن کی بدولت پشاور پشاور تھا۔

مگر اب پشاور کی جو صورتحال ہے وہ تسلی بخش ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ شہر دھماکوں کی گرج سے لرز جاتا تھا اب وہاں ہنسی اور خوشی کے پھوارے پھوٹ رہے ہیں۔ جس پر اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔

یہ وہی پشاور ہے جس کے بارے میں شہنشاہ بابر نے اپنی سوانح حیات ”تزک بابری “ میں اپنے مشاہدات سپرد قلم کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں تاحد نظر پھول ہی پھول دکھائی دیتے ہیں، وہ اس شہر کی تاریخ کا زریں دور تھا۔ پشاور جو درہ خیبر میں داخل ہونے کے مقام پر واقع ہے۔ جو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیاء کے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے۔ ، ہندوستان کے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے دہلی کابل شاہی روڈ تعمیر کرتے ہوئے اس شہر کا خاص خیال رکھا اور وہ شاہراہ جسے آج گرینڈ ٹرنک روڈ ( جی ٹی روڈ) سے موسوم کیا جاتا ہے، اس عظیم شہر سے گزاری جس سے اس کی تجارتی و کاروباری اہمیت میں اضافہ ہوا۔

مختلف تہذیبوں کا سنگم پشاور شاہراہ ریشم پر واقع ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہ دریائے سندھ یا مقامی آبادی کی زبان میں دریائے اباسین کے مغرب کی سمت واقع اور پختونخوا، پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی کا سرچشمہ ہے۔ یہ وسطی ایشیاءاور جنوبی ایشیا دونوں کا سرحدی شہر ہے۔ پشاور جسے پختون پیخور پکارتے ہیں یا ہندکو بولنے والے قدیم پشاوری باشندوں کے نزدیک پشور ہمیشہ ایسا شہر رہا ہے جس پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ ماضی کے حملہ آوروں نے جن کا تعلق وسطی ایشیاء، فارس، افغانستان، ہندوستان اور اس سے آگے دوسرے ممالک سے تھا، اس شہر پر یلغار کی اور اسے لوٹتے رہے، نو آبادیاتی فتوحات کی مختلف مہمات کے دوران آریاؤں، یونانیوں، اہل فارس، مغلوں، افغانوں، سکھوں اور انگریزوں نے پشاور پر قبضہ کیا۔ اور یہ شہر ان کے ہاتھ سے نکلتا رہا، پھر پختون قبائل جو اس شہر سے متصل خیبر اور مہمند قبائلی علاقوں، درہ آدم خیل اور حسن خیل کے فرنٹیئر ریجنزمیں آباد ہیں اپنے خلاف حملے کی صورت میں اس شہر کے لئے خطرہ بنتے رہے۔

اس مرتبہ پشاور پر جو حملہ ہوا تھا وہ حملہ غیروں نے نہیں بلکہ اپنوں نے اسلام اور مذہب کے نام پر کیا تھا۔ اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے بے گناہ معصوموں کوموت کے منہ میں دھکیلا گیا تھا جن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ماؤں سے لخت جگر بچوں کو ماوں سے محروم اور یتیم کیا گیا۔ بیواؤں کے سہاگ اجاڑ دیے گئے۔ کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں ماتم نہ ہوا ہو جہاں آہ وفغان نہ سنی گئی ہو۔ دھماکے کے دن درجنوں گھروں سے رونے کی آوازیں آتی رہیں مگر اس شہر کے غیور پختونوں نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان باشندوں کے ذہنوں میں اس امر کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ وہ اپنے شہر کو لاحق اس تازہ ترین خطرے پر بھی قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دو دو سو کلو تک بارودی مواد سے لدی گاڑیوں کے ذریعہ خود کش حملے کیے گئے۔ آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا گیا۔ فوج، پولیس اور حکومتی ادارے و تنصیبات بھی محفوظ نہیں رہے تھے۔

لاہوری اپنے شہر پر فخر کرتے ہیں۔ اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں ”لاہور، لاہور اے “ اور ” زندہ دلان لاہور “ وہ القابات و خطابات ہیں۔ جو بہت عام استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اس ثقافتی صدر مقام میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بڑے زندہ دل اور جوش و ولولہ سے بھر پور ہوتے ہیں۔ لگ بھگ 30 لاکھ کی آبادی کا شہر پشاور جو اگرچہ لاہور سے کہیں چھوٹا ہے لیکن اس کے باسی بھی پیچھے نہیں ہیں۔ صوبہ خیبر ُختونخوا میں رہنے والے پشاور کے متعلق اکثر یہ کہتے سنے جاتے ہیں ” پیخور خو پیخور دے کنا“ ( یعنی پشاور پشاور ہے) یہ اس لئے بھی سچ ہے کہ پشاور میں آپ کو جو گرم جوشی اور مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتی۔

پشاور چونکہ وسطی، مغربی اور جنوبی ایشاءکا قدیم ترین شہر ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد دوسری صدی عیسوی میں کشان بادشاہ کنشک نے رکھی تھی۔ پشاور کے نواح میں نصب کنشک کا سات سو فٹ بلند مجسمہ اس وقت دنیا کا بلند ترین مجسمہ تصور کیا جاتا تھا۔ زمانہ قدیم میں پشاور کو پرشاپورہ کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہے مردوں کا شہر۔ یہ سنسکرت کا لفظ ہے۔ پشاور کے ہندو اور بدھ ماضی کے سبب اس کا نام پرشاپورہ مستعمل تھا، اگر اس نام کا وہی مطلب ہے جو اوپر دیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے یہ نام دینے والوں نے ساری زنانہ آبادی کو حذف کرکے اس کا یہ نام رکھا تھا۔ اگرچہ زمانہ بدل گیا ہے اور آج خواتین پشاور اور صوبے کے دوسرے حصوں میں زندگی کے کئی شعبوں میں سرگرم و فعال دیکھی جاتی ہیں۔ لیکن شہر کی قدامت پسندانہ اقدار ظاہر کرتی ہیں۔ کہ یہاں آج بھی مرد خواتین کو وہ آزادیاں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جو ان کا حق ہے، یا پھر ہو سکتا ہے ” شہر مرداں “ سے مراد ایسے جری و جفاکش لوگوں کا مسکن ہو جو اپنی غیرت و حریت کے تحفظ کے لئے لڑنے اور کٹ مرنے کو ہمہ وقت مستعد و تیار ہوں ۔ مغربی صحافی جو پشاور کے متعلق اپنے مکتوبات سپرد قلم کرتے ہوئے اسے گردو غبار سے اٹا ہوا شہر لکھتے تھے اب انہوں نے نئے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا تھا انہوں پشاور کو وار سٹی، جنگ کا شہر کہا ہے

پشاور جن کربناک حالات میں گھرا تھا ان کا آغاز 1970کی دہائی میں اس وقت ہوا جب سردار محمد داؤد نے 1973ءمیں اپنے کزن بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان کا اقتدار سنبھالا تھا۔ اور پختونستان کے لئے زیادہ زور شور سے آواز بلند کرنی شروع کی۔ پاکستان میں اس وقت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ” جیسے کوتیسا“ کے مصداق جوابی کارروائی کے طور پر افغان منحرفین کے ساتھ رابطے کیے اور ان کی پیٹھ ٹھونکی۔

ان میں گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود اور مولوی یونس خالص شامل تھے۔ ان سب کو پشاور میں ٹھہرایا گیا اور ان کے جنگجوؤں کو تربیت دی گئی جو افغانستان میں سرگرمیوں کے لئے دراندازی کرتے تھے۔ افغان حکومت نے پشاور اور صوبہ سرحد کے دوسرے حصوں میں بم دھماکے کرنے والوں کی امداد و اعانت کی۔ جب اپریل 1978ءمیں افغان کمیونسٹوں نے علم بغاوت بلند کیا اور مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو بم دھماکوں کی کارروائیوں میں تیزی آگئی اور تواتر سے ایسے واقعات رونما ہوئے۔ جن کا نتیجہ دسمبر 1979ءکے دوران افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوا۔

اس کے بعد امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان افغان مجاہدین کا سب سے بڑا حامی و مدد گار بن گیا۔ اور ڈیورنڈ لائن کے پار قابض سرخ فوج کے خلاف جہاد کے لئے سرحد اور بلوچستان کے صوبوں نے فرنٹ لائن صوبوں کی حیثیت اختیار کر لی۔ پشاور کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ یہ افغان مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر، بین الاقوامی جہاد کا مرکز اور دنیا بھر کے جاسوسوں کا صدر مقام بن گیا تھا۔

انیس سو اسی کی دہائی اور 1990ء کی دہائی کے اوائل کے دوران پشاور میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات کی ایسی بھر مار ہوئی کہ اوسطاً ایک ہفتے میں ایک بم دھماکہ ہوتا رہا، اس زمانے میں بظاہر کے جی بی اور خاد کے ایجنٹوں نے بس اڈوں، سینما گھروں، ریستورانوں اور سکولوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جو افغان مجاہدین کے لئے پاکستان کی حمایت کا بدلہ لینے کے لئےکیے جاتے تھے۔

ان واقعات کو ذہن میں تازہ کریں تو ان واقعات اور 2005 کے بعد ہونے والے بم دھماکوں کے واقعات میں گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ مگر اب عسکریت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت باہم مل کر عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لئے اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں جن کوعوامی حلقوں کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے یہ شہر پھر سے اپنی کھوئی ہوئی رعنائی حاصل کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).