کیا نواز شریف ایک نظریہ بن گئے ہیں؟


سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف نے ایبٹ آباد میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا ہے۔ تاہم اس تقریر میں بھی وزارت عظمی سے نااہلی کے بعد کی جانے والی سب تقریروں کی طرح پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ، جے آئی ٹی کی تحقیقات اور عوام کے ساتھ اپنے تعلق پر زور دیا گیا۔ انہوں نے ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں اس بات کو مسترد کیا ہے کہ مائنس نواز شریف فارمولا سیاسی تبدیلی لا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا نواز شریف اب ایک نظریہ کا نام ہے ، یہ نظریہ عوام کی بہبود اور بہتری کے لئے انقلای تبدیلیاں لاکر رہے گا۔ ملک میں بہت سے لوگ نواز شریف کے اس دعویٰ سے متفق نہیں ہوں گے اور بہت سے تجزیہ نگار بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف 14 برس کے وقفہ کے بعد 2013 میں ایک بار پھر شاندار کامیابی حاصل کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔

تاہم ایک منتخب وزیر اعظم کو جس طرح ایک ناقص عدالتی فیصلہ کے ذریعے اقتدار سے الگ کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے نواز شریف کی سیاسی طاقت میں اضافہ اور ان کی باتوں میں تاثیر پیدا ہوئی ہے۔ اگر پاناما کیس میں 28 جولائی کا فیصلہ سامنے نہ آتا اور نواز شریف کو وزیر اعظم کے طور پر دوبارہ عوام کے سامنے جانا پڑتا تو موجودہ انتخابی نظام کے تمام تر نقائص کے باوجود ووٹر ان سے ضرور یہ سوال کرتے کہ ان کی حالت تبدیل کرنے یا ملک کے وقار میں اضافہ کرنے کے لئے کیا کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مبصر یہ قرار دیتے ہیں کہ حکومت میں رہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کسی نہ کسی طرح انتخابی نظام اور انتظامی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 2018 کے انتخاب جیتنے میں بھی کامیاب ہو جاتی۔ تاہم یہ ایسے دعوے ہیں جن کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق کبھی اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکتا۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ پاناما کیس میں عدالتی مداخلت کے بغیر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو عوام کے سامنے اپنی کارکردگی اور پانچ برس کے دوران حاصل کئے گئے نتائج پر بات کرنا پڑتی اور مخالفین ان کمزوریوں اور ناکامیوں کا ذکر کرتے جن کا مظاہرہ مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے غیر موافق فیصلہ نے صورت حال یکسر تبدیل کردی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل کے بعد 2008 میں حکومت سازی کا موقع ملا تھا۔ اس دوران پیپلز پارٹی اپنے وعدوں کے مطابق عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔ اسی لئے 2013 کے انتخابات میں وہ صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی اور اب تک اس صدمہ سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کو بھی 2018 کے انتخابات میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔ کیوں کہ ملک کی برآمدات میں ڈرامائی تبدیلی، افراط زر میں اضافہ، بنیادی فلاحی سہولتوں کی عدم فراہمی اور ملک میں پھیلی ہوئی معاشی محرومی اور سیاسی بے چینی کی وجہ سے اس بات کا امکان موجود تھا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوؤں، سی پیک کے نتیجے میں معاشی احیا کے امکانات اور موٹر وے اور میٹرو جیسے منصوبوں کی تکمیل کے باوجود عوام مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں سے دوری اختیار کرتے۔ بڑے منصوبوں کی تکمیل عام آدمی کے لئے صرف اس صورت میں معنی رکھتی ہے اگر اس کے گھر کا چولہا جل رہا ہو اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کے امکانات بہتر ہو رہے ہوں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تیسرا موقع ملنے کے باوجود اس حوالے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔

نواز شریف کے خلاف عدالت عظمی کے فیصلہ کے بعد ملک میں جس طرح یہ تاثر عام کیا جاتا رہا ہے کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹانے کے لئے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ اس بارے میں پارٹی کے اندر انتشار، خاندان میں لڑائی اور اداروں کی مخالفانہ رائے کا حوالہ زبان زد عام ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمانوں نے بھی اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کی ہوگی لیکن نواز شریف کی نااہلی کے بعد سیاسی جوڑ توڑ کی خبریں عام ہوئی ہیں ۔ اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کے رویہ سے بھی یہ عیاں ہوتا رہا ہے کہ وہ کسی اصول کی بنیاد پر نواز شریف کی مخالفت کرنے اور کسی سیاسی منشور پر عوام سے ووٹ مانگنے کی بجائے، کسی خفیہ طاقت کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہوئے کسی بھی طرح اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کررہی ہیں۔ اگرچہ سیاسی مخالفین یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح نواز شریف کو کمزور کیا جا رہا ہے لیکن یہ طریقہ کار نواز شریف کی کمزوریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا کام بھی کر رہا ہے۔ اس سے ایک طرٖف سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں بھی شبہات قوی ہوئے ہیں تو دوسری طرف نواز شریف بھرپور طریقہ سے اپنے خلاف فیصلہ کو سیاسی ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

ایبٹ آباد میں نواز شریف کا یہ دعویٰ کہ وہ اب ایک نظریہ کا نام ہیں، دراصل ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کا ہی حصہ ہے۔ ورنہ یہ قیاس کرنا عبث ہوگا کہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) گزشتہ 35 برس کے دوران جب عوام کی زندگی میں کوئی انقلاب نہیں لا سکی تو اب عدالت مخالف بیان بازی سے وہ کیسے عام آدمی کی زندگی کو تبدیل کرسکتی ہے۔ تاہم عدالت میں سامنے آنے والے فیصلوں نے نواز شریف کو اپنی سیاسی زندگی اور پارٹی کی قوت میں اضافہ کرنے کا ایک موقع ضرور فراہم کردیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2765 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali