جی پی ایس ٹریکر اور مائنڈ سیٹ


\"dr.

خواتین کے بارے پنجاب اسمبلی والے بل پہ بہت بڑے بڑے دانشوروں کی باتیں سنی اور پڑھیں لیکن خیر کیا کہوں کہ بڑے بڑے لوگ بھی کبھی کبھار ایسی بنیادی چیزیں مس کر جاتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ حیران ہوں کہ سر پیٹوں؟ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، زانی کی سزا سنگسار اور قتل کی سزا،گردن تن سے جدا ھے۔  مولانا مودودی سے کسی نے ان سزاؤں کے پاکستان میں فوری نفاذ کے بارے میں پوچھا تو مولانا کا جواب تھا کہ ان سزاؤں کو فوری طور پہ پاکستان میں نفاذ ممکن نہیں ہے۔  وضاحت مانگی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ ان سزاؤں کا نفاذ اُس معاشرے میں ممکن ھے جہاں اسلام مکمل طور پہ نافذ ہو گیا ہو اور پاکستان میں ابھی معاشرہ مکمل طور پہ اسلامی نہیں ہے اس لیے ان سزاؤں کے فوری نفاذ کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔  پہلے معاشرہ مکمل طور پہ اسلامی کیجیئے اور پھر آخر میں ان سزاؤں کا نفاذ بھی کیجیئے۔

اسکی مثال یوں لیجیئے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں شراب کی ممانعت نہیں تھی،پھر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اور جب مدینے میں ایک ریاست بن گئی جس میں ایک نظام اسلامی تشکیل دیا جا چکا تو پھر جا کے شراب کی ممانعت کی گئی۔ پہلے لونڈیاں اور چار شادیوں کی اجازت دی گئ اور پھر بھی جب کوئی باز نہیں آیا تو پھر سنگساری کا قانون اپلائی کیا گیا۔ پہلے معاشرہ اس قسم کا بنایا گیا کہ مجبوراً کسی کو گناہ نہ کرنا پڑے اور اگر پھر بھی کوئی باز نہیں آتا تو پھر اسے سزا دی جائے۔

یہ تو ہوگئی بڑی لمبی تمہید،اب آئیے اصل مسئلے کی طرف۔ پنجاب اسمبلی والا قانون تو بہت اچھا ہے اور مجھے تو اس قانون میں کوئی غلط بات نظر نہیں آتی۔ مگر سوال یہ ہے کہ قانون اتنا اچھا ہونے کے باوجود مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس قانون کے خلاف اتنی مزاحمت کیوں آ رہی ہے؟ مولویوں کو برا بھلا کہہ دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ ایک بات بتاؤں کہ مولوی اس مسئلے پہ آپ کے معاشرے کے نوے فیصد حصے کی نمائندگی کر رہا ہے۔ جی ہاں۔ وہ کیسے؟ جناب میں تو بچپن سے یہی سنتا آیا ہوں کہ ہمارے مذہب میں اس بات کی مکمل اجازت ہے کہ پہلے بیوی کو سمجھاؤ وغیرہ وغیرہ اور پھر جب بھی بیوی نہ مانے تو ہلکی پھلکی پٹائی کرنے کی بھی اجازت ہے۔ ہے کہ نہیں؟ اور پھر جب بات کسی طریقے سے نہ بنے تو طلاق۔ ویسے یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ھے جہاں بیوی بھی طلاق کا حق حاصل کر سکتی ہے اور دنیا کے کسی اور اسلامی ملک میں ابھی تک بیوی کو طلاق کا حق نہیں دیا گیا۔ سعودیہ میں بھی نہیں اور انڈیا میں بھی نہیں۔ جی ہاں۔ آپ چاہیں تو خود بھی اسکی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں  جی پی ایس بریسلٹ کی جب آپ باتیں کریں گے تو ہر طرف سے مزاحمت کیسے نہیں آئے گی؟

بچپن سے یہی سنا ھے کہ نان نفقہ پورا کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے تو پھر مرد بیوی کو کام کیوں کرنے دے؟ کیونکہ عورت کی کمائی پہ شوہر کا تو کوئی حق ہی نہیں ہے؟ لگتا ہے یہ بات سمجھ نہیں آئی؟ مزید وضاحت کرتا ھوں۔ مغربی معاشرے میں عورت مرد دونوں کام کرتے ہیں اور دونوں مل کے گھر کا خرچ چلاتے ہیں وہاں عورت مرد پہ مالی بوجھ نہیں ہے وہ اپنا کما سکتی ہے۔ اپنا آپ خود پال سکتی ہے ایسی صورت حال میں جی پی ایس بریسلٹ اور عدالتی حکم تحفظ وغیرہ کی باتیں منطقی معلوم ہوتی ہیں۔ پہلے اپنے ہاں بھی عورت کو مالی طور پہ خود مختار بنائیے پھر ایسے حقوق کی بات بھی کیجیئے۔ مِعاف کیجیئے گا آپ کی ترتیب غلط ہے آپ مغربی سزاؤں کا نفاذ پہلے کرنے بیٹھ گئے ہیں اور معاشرہ ابھی تک آپ کا مشرقی ہے اور پھر شکایت یہ کہ مخالفت کیوں آ رہی ہے؟

حکمران اور قوم دونوں کمال کنفیوژن کا شکار ہیں ایک طرف ہم مشرقیت وغیرہ چھوڑنا بھی نہیں چاہتے اور دوسری طرف مغربیت اپنانا بھی نہیں چاہتے۔ دل تو ہمارا کرتا ہے کہ ہم جس مرضی لڑکی سے چاہیں دوستی کریں پر جب کوئی ہماری بہن سے دوستی کرنا چاہتا ہے تو ہم مرنے مارنے پہ اتر آتے ہیں۔ قصہ مختصر پہلے عورت کو پڑھائیے، مالی طور پہ اسے خود مختار کیجیئے پھر ایسے قانون خود بخود بنیں گے جیسے کہ مغرب میں خودبخود بن رہے ہیں۔ پھر کون انکی مخالفت کرے گا؟

مولانا مودودی والی مثال ذہن میں رکھیئے پہلے معاشرے میں تبدیلی لائیے پھر سزاؤں کا نفاذ۔ نہیں تو جناب جتنے مرضی اچھے قانون بنا لیجیئے،مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کے بغیر انکا نفاذ کوئی فائدہ نہیں دے گا؟ شوہر کو دو دن کے لیئے گھر سے نکالنا تو بڑا آسان ہے لیکن جب یہ شوہر واپس آ کے چار بچوں کے ساتھ ماں کو گھر سے نکالے گا تو اس وقت بیوی کا باپ ریٹائرڈ ہو چکا ہو گا۔ بھائیوں کی اپنی شادیاں ہو چکی ہوں گیں اور اس چار بچوں کی ماں نے خود تو پہلے کوئی نوکری نہیں کی ہو گی۔ تو جناب پہلے عورت کو اتنا مضبوط تو بننے دیجیئے کہ وہ اکیلی اپنا اور اپنے بچوں کا بوجھ اٹھا لے۔ میری ان باتوں کا مقصد حوصلہ شکنی نہیں بلکہ کڑوی حقیقت کو بیان کرنا ہے۔ یعنی پہلے مائنڈ سیٹ تبدیل کیجیئے،لوگ عورت کا استحصال قانون کے ڈر سے نہیں بلکہ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی سے چھوڑیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments