عامر لیاقت حسین کیسے بنیں؟


سوشل میڈیا پر عامر لیاقت حسین کا چرچا دیکھ کر حقیر یوٹیوب پر ان کے ایمان افروز اور خون کو گرما دینے والے شو دیکھتا رہا ہے۔ ان کے شو کی جتنی بھی ویڈیو میں نے دیکھیں ان میں سے دو ایسی ہیں جو مجھ سے بھلائے نہیں بھولتیں۔ پہلا ویڈیو اس وقت کے شو کا ہے جب پاکستان میں ایک کے بعد ایک بلاگرز لاپتہ ہو رہے تھے۔ حضرت عامر لیاقت نے اس وقت ایک شو میں برینگ نیوز کے عنوان سے یہ عقدہ کشائی فرمائی کہ یہ سارے بلاگرز اپنی مرضی سے بھارت جا بیٹھے ہیں جہاں وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کا آلہ کار بن کر سوشل میڈیا پر اسلام مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ یہ انکشاف سن کر پاکستان کے عوام کو یقینا جھٹکا لگا ہوگا، جو افراد لاپتہ بلاگرز کے مخالف تھے ان کی نفرت اور راسخ ہو گئی ہوگی، جن افراد نے اس معاملہ پر کوئی رائے نہیں قائم کی ہوگی ان کے دل میں لاپتہ بلاگرز کے لئے منفی جذبات پیدا ہوئے ہوں گے اور جو افراد لاپتہ بلاگرز سے ہمدردی رکھتے ہوں گے ان میں سے کئی نے اپنے موقف سے رجوع بھی کیا ہوگا۔ یہ سب کچھ آنجناب کے ایک انکشاف پر ہوا جس انکشاف کی حقیقت اس روز کھل گئی جب وہی بلاگرز اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔ ظاہر ہے اگر وہ بھارت سے واپس لوٹ کر جاتے تو سرحد پر پاکستانی حکام انہیں ضرور روکتے اس لئے قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کو پاکستان میں ہی کسی نے اٹھایا اور کام کر کے چھوڑ دیا۔ مجھے علم نہیں کہ بلاگرز کی واپسی کے بعد عامر لیاقت حسین نے اپنے انکشاف کی کیا توجیہ کی ہوگی۔

حضرت کا دوسرا انکشافی ویڈیو روہنگیا مسلمانوں پر مظالم سے متعلق تھا جس میں انہوں نے فرمایا کہ شو شروع ہونے سے چند منٹ قبل یہ بریکنگ نیوز آئی ہے کہ ایران اور ترکی چوبیس گھنٹے کے اندر سرحدیں عبور کرتے ہوئے میانمار میں گھس جائیں گے۔ انہوں نے ایک ٹوئیٹ کی تصویر بھی اسکرین پر دکھائی جس میں ٹوئیٹ کرنے والے ہینڈل کا نام ہی نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے یہ ویڈیو، شو نشر ہونے کے پانچ روز بعد دیکھا تھا اور اس کے بعد اب دو مہینہ اور اوپر ہو گئے لیکن آنجناب کی وعید پوری نہیں ہوئی۔ اس بارے میں بھی کوئی تاویل ہوئی یا نہیں ہوئی اس کا مجھے عمل نہ ہو سکا۔

مندرجہ بالا دونوں مثالوں کو ذہن میں رکھ کر عامر لیاقت حسین صاحب کے ان ارشادات پر نظر ڈالئے جو انہوں نے بول ٹی وی سے مستعفی ہوتے ہی چینل کے مالکان کے بارے میں فرمائے ہیں۔ عامر لیاقت صاحب نے برسوں تک جس چینل کی صداقت و امانت کی یقین دہانی کرائی ہے اب اسی کی تکذیب کے لئے وہ درجنوں ٹوئیٹس پیل رہے ہیں۔ ان کی شخصت کو سمجھنے کے لئے ایسے بزرگوں کی نفسیات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ اصحاب ہیں جن کی ساری توانائیاں خود کو بطور برانڈ کھڑا کرنے میں صرف ہوتی ہیں۔ اس کے لئے ایسے لوگ اس چینل کا جم کر استعمال کرتے ہیں جس میں وہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ چینل اس غلط فہمی میں خود کا استعمال ہونے دیتا ہے کہ اسے اینکر کے سبب ریٹنگ مل رہی ہے جبکہ ماجرا اس سے الٹ ہوتا ہے اور اینکر اپنی شخصیت سازی کے لئے چینل اور ٹی آر پی کو بطور پلیٹ فارم استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے افراد جانتے ہیں کہ انہیں جلد از جلد خود کو برانڈ بنا لینا ہے اس لئے سنسنی خیز انکشافات، الزام تراشی، بدزبانی غرض سب کچھ کرکے پہچان بنا لی جاتی ہے۔ ان دوستوں کو علم ہے کہ سنجیدگی اور جوابدہی کے چکر میں پڑے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا اس لئے ہر وہ کام کیا جاتا ہے جو اپنی غیر سنجیدگی، استعجاب اور انوکھے پن کے سبب ناظرین کو کھینچ سکے۔ دیگر ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن بھارت اور پاکستان میں جو ٹی وی اینکر جتنا زیادہ شور مچائے گا، تماشہ کرے گا اور لوگوں کی پگڑیاں اچھالے گا اتنا ہی شہرت اور ریٹنگ کی سیڑھیاں جلد چڑھ جائے گا۔

یہاں ایک بات اور ذہن نشین رہنی ضروری ہے، اس پورے کھیل میں نیوز چینل بھی بے خطا نہیں ہیں۔ اپنے یہاں اسٹار اینکروں کے ذریعہ لائیو بندر لڑانے اور عزت اچھالنے کا کھیل برسوں برسوں تک جاری رکھنے کی اجازت یہ چینل اسی لالچ میں دیتے ہیں کہ بدلہ میں ریٹنگ مل رہی ہے۔ مطلب یہ کہ نہ تو اینکر کو خبر سے کوئی مطلب ہے اور نہ چینل کو عوام کے تئیں جواب دہی کی کوئی فکر ہے، ایسے میں بیوقوف وہ ناظرین بنتے ہیں جو شام کو دل ہی دل میں وضو کر کے ایسے اینکروں کے بیانات سے استفادہ فرماتے ہیں۔ ٹی وی کی صحافت کا پورا کھیل تجارت میں بدل گیا ہے اور ایسے صحافیوں کی تعداد روزانہ گھٹ رہی ہے جو اس دور میں بھی ٹی وی پر بیٹھ کر صحافتی جواب دہی کا لحاظ رکھتے ہیں۔ کرتب بازیوں کو ٹی وی نیوز کا نام دیا جا رہا ہے ایسے میں اگر ناظرین محض تماشائی بنے رہے تو عامر لیاقت حسین روز پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم جیسے سادہ دلوں کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter