ہجر میں کیا نہیں ہے کہ تم سے کہیں


ہم درویشوں کو حریص دنیا والوں سےکیا لینا دینا؟ بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ ؟ فکرو تدبر کے آگے ہم نے دیوارِ چین کھڑی کر رکھی ہے ۔ معقولیت کی راہ میں خار دار تاریں بچھائے بیٹھے ہیں ۔ مقصدیت کے سامنے باڑ لگا رکھی ہے ۔ منطق اور دلیل کے داخلی رستوں کو کنٹینروں سے سیل کر رکھا ہے ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جبری ریٹائرڈ کر دیا ہے ۔ روادار ی کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ روشن مستقبل کے رستے میں ہمارے قدیم المعیاد زنگ آلود نظریات کی سموگ چھائی ہے ۔ سوئے منزل جانے والی شاہراہ پر ہم نے ناکے پہ ناکہ لگا رکھا ہے ۔کسی بھی نئی یا تعمیری سوچ کے آگے ہم ازلی دھرنا باز ہیں ۔ تاہم دانش کی ناتواں فصیل پرہم سوار ہیں جو ہمارے بے کراں بوجھ اور فلک شگاف بڑھکوں سے لرزتی ہے ۔ بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ ؟ مادی دنیا کی آسائشوں میں سر تا پا ڈوبے کم ظرفوں اور ہمارے ایسے دنیا کو پائے حقارت سے ٹھکرانے والے فقیروں کا آپس میں کیا جوڑ؟ محض دنیاوی ترقی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنانے والے ’بنیوں‘ اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھی پرواہ نہ کرنے والے مستانوں کا کیا تقابل؟ حیا باختہ قوموں سے حیا کے پتلوں کو کیا نسبت؟ کجا عاشق ، کجا کالج کی بکواس ؟ کہاں خلائی سٹیشنز تعمیر کرنے والے اور کہاں ہوائی قلعوں کے معمار ؟ چاند پر جا بسنے کے لیے کوشاں گنہگار کجا اور اسے ننگی آنکھ سے دیکھنے کی بحث میں زمین پر باہم دست و گریباں نیکو کار کجا؟بے شک آج دنیا گلوبل ویلج میں سمٹ آئی ہے مگر ہماری اس کے ساتھ وہی نسبت ہے جو خالد مسعود خان کو اپنی معشوق سے تھی کہ : وہ سبق مُکا کے بہہ جاتی ، ہم پنسل گھڑیا کرتے تھے بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ اغیار اکیسویں صدی کو آزادی، جمہوریت، مساوات اور بنیادی حقوق کی صدی قرار دیں تو بصد شوق ، ہماری زندگی کی کتاب سے تو ان اسباق کے ورق ہی پھٹے ہوئے ہیں۔ اہل مغرب جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے کائنات کے اسرارو رموز کھولتے ہیں تو کھولیں ، ہم تو ہنوز طلاق و حلالہ کے فقہی مسائل میں غوطہ زن ہیں۔ وہ خلامیں بستیاں بسانے کے پروگرام بنائیں تو بسم اللہ ، ہمارے تو زلزلہ زدگان اور متاثرین سیلاب بھی ابھی در بدر ہیں۔ وہ پرائیویسی کا احترام یقینی بنائیں تو ان کی مرضی ، ہم تو دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں ٹانگ اڑانا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ قانون کی پاسداری غیروں کے لیے قابل فخر ہے تو ہو ، یار لوگ تو لاقانونیت کے میدان میں دور نکل آئے ہیں ۔

عدل و انصاف کا عنصر جن کی زندگیوں کا جزو لاینفک ہے ، ان کو مبارک ، ہم سے تو یہ بلائیں کئی نوری سال بلند ہیں ۔ یہودوہنود اگرمریخ پر بھی بجلی بنانے کے لیے ایٹمی انجن کے تجربات کر رہے ہیں تو بخوشی کریں ، ہم تو بجلی و گیس کی کمی کے سبب قرونِ اولیٰ کی جانب گامزن ہیں ۔ وہ فلاحی ریاستیں بنائیں ، ہم اپنی دفاعی ریاست کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف ہیں ۔ خود انحصاری کے شوقین بے شک لانگ ٹرم پالیسیاں بنائیں ، ہم نے تو لا محدود مدت تک کاسہ ¿ گدائی پکڑے دنیا کے در درپر صدائیں کرنی ہیں ۔ وہ جدید علوم کے بل بوتے پر دنیا کو فتح کر رہے ہیں تو کریں ، ہم اپنی جہالت کے زور پر وائٹ ہاﺅس پر اپنا پرچم لہرانے کی بڑھکیں جاری رکھیں گے۔ بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ وہ شخصی آزادیوں کی معراج پر ہیں تو صد بسم اللہ ، ہم تو اپنے ہی ملک میں غلام ابن غلام ہیں ۔ جمہوریت کے فیوض و برکات جمہوری ممالک جانیں ، ہمارے سروں پر تو ازل سے آمریت پھن پھیلائے کھڑی ہے ۔ جدید سائنس سے کائنات کو مسخر کرنے کے شوقین اپنا شوق پورا کریں ، ہم تو جعلی ڈگریوں کے سہارے اپنے ہی ملک و قوم کی تسخیر میں مشغول ہیں ۔ تنظیم ، ڈسپلن اور اتحاد سے ممالک ترقی کر رہے ہیں تو ہمیں کیا غرض ، ہم نے تو ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر آگے نکلنے کو ترقی قرار دے رکھا ہے ۔

صاف فضا اور خالص خوراک پر پلنے والوں سے ہمیں کیا واسطہ، ہمیں تو جینے کے لیے صاف پانی اور مرنے کے لیے خالص زہر بھی دستیاب نہیں۔ امن کے لیے نوبل پرائز دینے والے جانیں اور لینے والے ، ہم تو دین مبین کی سر بلندی کے لیے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے اور خود کش دھماکے کرنے میں جُتے ہوئے ہیں۔ جو اپنی سیکورٹی پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ، انہیں مبارک ، ہماری صفوں میں تو دہشت گردوں کے حمایتی اور سہولت کار دندناتے پھرتے ہیں ۔ وہ دہشت گردی کے ساتھ نبردآزما ہیں تو ہوں ، ہماری تو ابھی آرٹ اور کلچر کے خلاف جنگ جاری ہے ۔ وہ بیلٹ باکس کی طاقت سے حکمران بدلتے ہیں تو بدلیں ، یہاں تو مردانِ ہنر کار اپنا ہنر آزماتے ہیں ۔ بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ وہ مکالمے کی بنیاد پر مسائل کی گھتیاں سلجھاتے ہیں تو خوب است ، ہم تو مکالمے کے لیے مولا جٹ اور عقل کے لیے نوری نت ہیں۔ دنیا ہمارے وسائل پر قابض ہوتی ہے تو اس کی ہمت، ہم تو ابھی سیاسی مخالفین کو دبانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں محو ہیں۔ وہ سماجی رابطے کی حیرت انگیزٹیکنالوجی متعارف کرائیں تو مبارک با شد، ہم تو ٹیکس چوری کی نئی نئی جہات کی تلاش میں ہیں ۔ جو سائنس و ٹیکنالوجی کاعقل شکن انقلاب لائے ہیں ، انہیں آفریں ، ہم تو تارا سنگھ کے انقلاب ”ایک کھڑی عمارت کی چھت نیچے اور بنیادیں اوپر کر دینے کا نام انقلاب ہے “ کے داعی ہیں ۔ وہ قابل اور دیانتدار نمائندوں کی اقتدا ءمیں خوش ہیں تو خوش رہیں ، ہم تو ابھی اپنے آئین کی شق 62,63پر پورا اترنے والے رہنما ڈھونڈ رہے ہیں ۔ انہیں آزادی اظہار مبارک ،ہماری توسوچ پربھی کڑے پہرے ہیں ۔ وہ عورت کی عریانی کے دلدادہ ہیں تو ہوں ، یہاں تو وحشت ننگی ناچتی ہے ۔وہ سماجی ارتقاءکی حرکیات پر بحث کریں ، ہم تو صدیوں سے جمود کا شکار ہیں ۔ انہوں نے جدید علوم سے اگلی دنیاﺅں اور مستقبل کے راز کھوج لیے ہیں تو احسن ، ہمارے پاس تو ماضی سے سند یافتہ التباسات ہیں یا متنازعہ فاتحین کے قصیدے ۔ جنہیں منزل مل گئی ہے ، انہیں سلام، ہم تو تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا۔ بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ اب جبکہ اغیار مریخ کے بعد پلوٹو کی خاک اڑانے کو ہیں ،یہاں ابھی تک ملک چلانے کے لیے نظام کا تعین نہیں ہوسکا۔ وہ جنرل کرامویل کی لاش کوسول حکومت کا تختہ الٹنے کے سو سال بعد قبر سے نکال کر پھانسی دے چکے ، یہاں فخر سے ”فتوحات“ کے قصے سنائے جا رہے ہیں ۔ مغرب ہمیں انگلیوں پر نچا رہا ہے اور ہم ”زوال مغرب “نامی کتابیں لکھ رہے ہیں ۔ وہ سات سمندر پار بیٹھ کر اپنے جاسوس طیاروں کی مدد سے ہمارے افعال جمیلہ کا تماشہ کرتے ہیں اور ہم مغربی معاشروں کے اندر سے کھوکھلا ہونے کے خالی کنستر بجاتے ہیں۔ وہ اپنی محیر العقول تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے دیو ہیکل عمارتیں اور پل بناتے ہیں اور ہم ہنوز ڈیمز بنانے پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکے۔ انہوں نے سارے سبق پڑھ لیے ، ہم ابھی پنسلیں گھڑتے ہیں….بے ثبات دنیا کی حریص قوموں اور ہم درویشوں کا بھلا کیا مقابلہ؟ہم تو آج بھی اپنے قدیم فکری ڈھانچے میں آسودہ ہیں: کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے ہجر میں کیا نہیں ہے کہ تم سے کہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).