ہم پہ تمھاری چاہ کا الزام ہی تو ہے


جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

فیض احمد فیض؛ یہ نام محض ایک شخصیت کا نہیں بلکہ یہ نام ہے اک عہد کا جو کہ عہد حاضر، عہد رفتہ اور آنے والے عہد کا ہے، جس کے ہم بڑی شدت سے منتظر ہیں کہ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

فیض بے شبہ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کی سوچ کی روشنی ان کے چلے جانے سے ماند نہیں پڑی، بلکہ اس کی جگمگاہٹ میں ہر گزرتے دن کے ساته مزید اضافہ ہوا ہے. یہ بھی المیہ ہے کہ اس میں ہمارے اجتماعی چلن کا خاصی حد تک عمل دخل ہے کہ ہم کسی کو عزت دینے کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔

فیض کی شاعری میں ہمیں زندگی کا ہر رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ رومان، انقلاب، غمِ دوراں، غمِ جاناں، تمام جذبے اپنی پوری شدت سے سر اٹهائے دکھائی دیتے ہیں. فیض نے اپنی شاعری میں ان زندگی کے جذبوں کو کچھ یوں یک جا کیا ہے، گویا یہ ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہوں۔

فیض کا خاصا یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہر گزرتے دن کو بھرپور انداز میں جیا، پابند سلاسل رہ کر بھی ”دست صبا“ اور ”زندان نامہ“ جیسے لازوال تحفے ادب کے قدردانوں کو دان کرگئے. وہ راولپنڈی سازش کیس سے لے کر نیشنل کونسل آف آرٹس کی سربراہی تک، اسٹیبلش منٹ کے لیے کوہ گراں ثابت ہوئے.

فیض دنیائے نغمات میں غالب اور اقبال سے از حد متاثر تھے۔ قراتہ العین حیدر نے ایک موقع پر کہا کہ ”فیض اقبال کے بہت بڑے معتقد تھے۔ ان کا خیال تھا کہ علامہ کے اصل نظریات ان کی انگریزی تصانیف میں ہیں، تاکہ رجعت پسندوں کی دست رس سے محفوظ رہ سکیں“۔

فیض کا سب سے نمایاں پہلو یہ رہا کہ انھوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ تصویر کا روشن رخ ہی سامنے رکها اور اپنے مداحوں کو امیدِ پیہم کا پیغام دیا۔
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوت ہزار کا موسم
مثبت سوچ اور انسانیت کی تعظیم کو اگر ان کے کلام کی اکائی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

گوکہ فیض کو ہم سے بچھڑے تینتیس برس بیت ہوچلے، مگر جدید اسلوب سے مزین ان کی شاعری ناصرف آج، بلکہ رہتی دنیا تک عشاق ریختہ کے لیے رەنمائی کا استعارہ رہے گی!
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).