سپریم کورٹ کا مذہبی جماعتوں کے دھرنے پر ازخود نوٹس
عدالت کا کہنا ہے کہ یہ کونسا دین ہے جو راستے بند کرکے لوگوں کو تکالیف پہنچانے کا درس دیتا ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق یہ از خود نوٹس جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران لیا جس میں وکیل ابراہیم ستی نے عدالت سے یہ استدعا کرکے مقدمے کی سماعت ملتوی کرنے کے بارے میں کہا کہ چونکہ ان کا دفتر فیض آباد کے قریبی علاقے شمس آباد میں واقع ہے جہاں پر دھرنا دیا گیا ہے اس لیے وہ مقدمے کی تیاری نہیں کرسکے۔
وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ چونکہ اپنے دفتر نہیں جاسکے اس وہ اس مقدمے میں دلائل کیسے دیں گے جس پر بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائض عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہویے کہا کہ کیسے چند ہزار افراد پر مشتمل مظاہرین لاکھوں افراد کی نقل و حمل کو محدود کردیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ ملک کے آئین کا آرٹیکل 14 اور 15 شہریوں کو آزادی سے نقل حرکت کرنے اور ایک دوسرے کی عزت کرنے سے متعلق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس احتجاجی دھرنے میں دوسرے لوگوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے نہ تو کوئی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی قانون۔
سپریم کورٹ نے اس ضمن میں سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ اور اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے سربراہوں کو نوٹس جاری کرنے کے علاوہ اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے دو روز میں تفصیلی جواب طلب کیا ہے۔
اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے سے متعلق احکامات جاری کیے تھے لیکن مظاہرین نے عدالت عالیہ کا حکم ماننے سے انکار کردیا تھا۔
اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو بھی دھرنا حتم کروانے کا حکم دیا تھا لیکن اُنھوں نے بھی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے تحت اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔
حکومت نے مظاہرین سے مذاکرات کے لیے پیر حسین الدین کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو منگل کو مظاہرین سے مذاکرات کرے گی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا جاتا اس وقت مذاکرات میں پیش رفت ممکن نہیں ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).