جہادی شہید کا کفن


نکالا شیخ کو مجلس سے اس نے یہ کہہ کر

یہ بیوقوف ہے مرنے کا ذکر کرتا ہے

میں چودھویں صدی کا مسافر۔ گھر سے چلتا ہوں۔ تو ٹفن باسکٹ اور اخبار کا پرچہ سردی ہو تو ایک فیشن ایبل کمبل ضرور ساتھ رکھتا ہوں۔ گزشتہ صدیوں کے مسلمان سفر کو جاتے تھے تو جانماز۔ قرآن شریف، لوٹا مسواک، اور کفن بھی ساتھ لے لیتے تھے کیونکہ ان کو عبادت اور موت کا گھر سے نکل کر بھی خیال رہتا تھا۔

یہ تومیں نہیں کہہ سکتا کہ سامان سفر میرا اچھا ہوتا ہے یا ان کا اچھا ہوتا تھا۔ اس کا فیصلہ ہر شخص اپنے اپنے مذاق کے موافق کر سکتا ہے۔

البتہ کفن کی نسبت اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بہت ہی ڈراؤنی چیز ہے۔ اس کو اپنے ڈریس روم میں بصورت فوٹو بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ عجیب بے ہنگم لباس ہے اور لباس بھی اس وقت کا جس کا خیال کرنے سے قوت عقل کو صدمہ ہوتا ہے، اور خواہ مخواہ عیش و راحت میں گڑگڑاہٹ ہونے لگتی ہے۔

سنتا ہوں مسلمانوں کے ہاں ایک حدیث آئی ہے کہ جو شخص رات دن میں چالیس بار۔ روزانہ موت کو یاد کر لیا کرے تو اس کو شہید کا درجہ ملتا ہے۔ میرے فیملی ڈاکٹر کو اس کی خبر ہو جائے کہ میں نے ایسی بات سننے کا ورد کیا ہے۔ تو وہ ضرور کلورو فام لے کر دوڑ آئے۔ یا افیون کاست پلائے۔ یا برانڈی کے چند قطرے حلق میں ٹپکائے کیونکہ اس کو میری صحت کا بڑا خیال رہتا تھا۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ ایسی وہی چیزوں سے میرا دماغ پریشان ہو۔

میں ان دنوں وہسکی کا ایک گلاس زیادہ پینے لگا ہوں کیونکہ کم بخت واہمہ لڑائی کی ڈراؤنی شکلیں سامنے آتا ہے۔ اور دل سے کہتا ہے کہ سب آدمی مر جایا کرتے ہیں میرا دل ایسا واقع ہوا ہے۔ کہ وہ مرنے کے خیال میں فوراً جی لگا لیتا ہے۔ ہرچند اس کو ادھر سے ہٹاتا ہوں۔ مگر وہ میدان جنگ کے بے گور و کفن مردوں کے دیکھنے سے باز نہیں آتا۔ اور ٹھنڈے سانس بھرکے کہتا ہے ایک دن سب کو اسی طرح مرنا ہو گا۔ میں نے بارہا اس سے پوچھا کہ مجھ کو بھی؟ تو اس نے ذرا رعایت نہ کی اور یہی کہا۔ ہاں تجھ کو بھی۔ اس لئے میں نے مجبوراً جام شراب سے اس کا منہ بند کیا اور تھوڑی دیر کے لئے اس سے نجات حاصل کی۔

کل کی سنو  ! ایک مسلمان شہیدوں کے کفن کی نسبت بحث کر رہا تھا۔ میں نے چاہا کہ سنی ان سنی کر دوں۔ مگر اس نے کہا کہ آپ بھی تو مسلمان ہیں۔ مجھے کچھ شرم سی آئی۔ اور میں نے سائل کی رعایت سے الحمد للہ کہہ دیا۔

یہ لوگ بڑے بے تہذیب ہوتے ہیں۔ اتنا خیال نہ کیا کہ میں نے کتنی بڑی جرات کر کے اس کا دل ٹھنڈا کیا تھا۔ چاہئیے تھا کہ خاموش ہو جاتا مگر وہ تو گلے کا ہار ہو گیا۔ بولا شہیدوں کو کفن نہیں دیا جاتا۔ وہ اپنے ملبوس خون آلود ہی میں بغیر غسل کے دفن ہوتے ہیں۔ خون ان کا غسل ہے اور خون بھری پوشاک ان کا کفن دفن۔ کفن کا ہم وزن لفظ سن کر مجھے ایک پھریری سے آئی۔ اور دل کے اندر سینہ کے پٹھے میں درد کی سی کسک معلوم ہوئی۔ میں ڈرا۔ کیوں صاحب کل کرکٹ کا میچ کیسا رہا؟ اس وحشی نے جواب دیا آپ گیند بلے کو پوچھتے ہیں مجھے اس کی بابت کچھ معلوم نہیں۔ اتنا کہہ کر پھر شہید کے کفن کو لے بیٹھا کہ وہ کیسی اچھی موت ہے۔ مسلمان دولھا بن کر خدا کے سامنے جاتا ہے۔ سر کٹا ہوا۔ سینہ چھدا ہوا، آنکھیں اپنے معبود کے آگے جھکی ہوئیں۔

اب تو میرا دل لرزنے لگا۔ مجھ کو ایک جمائی آئی اور بائیں حصۂ جسم میں رعشہ کا سارا اثر محسوس ہوا میں نے اس سے کہا کیا تم نے دیکھا میرا بایاں ہاتھ اور پاؤں کچھ کانپتا ہے۔ فالج تو نہیں ہے اس نے ہنس کر جواب دیا۔ جی نہیں وہم ہے  ! اور بالفرض فالج ہو بھی تو کیا ڈر ہے۔ ہم تو خدا رسول کی باتیں کر رہے ہیں۔ اس میں جو تکلیف ہو۔ ثواب میں لکھی جاتی ہے۔

یہ سن کر مجھ کو تاب نہ رہی اس کی دیدہ دلیری اور بے ہراسی پر غصہ بھی آیا اور ترس بھی کہ یہ لوگ کس قدر کمزور عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور زندگی جیسی پیاری چیز کی خاک قدر نہیں جانتے اور میں نے اس کو ترشی سے یہ گفتگو بند کرنے کا حکم دیا۔

خیر ہو گئی۔ کہ ڈیر فادر ہملٹن ادھر آ نکلے۔ اور میں ان کے ہمراہ اٹھ کر چلا آیا۔ تاہم جہادی شہید کا کفن رات بھر سر پر سوار رہا۔ اسی واسطے آج آٹھ بجے کے بدلے دس بجے بیدار ہوا ہوں۔

خواجہ حسن نظامی

بشکریہ؛ بزم اردو لائبریری

حسن نظامی
Latest posts by حسن نظامی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).