شاہ رانجھا البیلا ….


80ءکی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔ ہم سب ایک ابتلا میں تھے۔ ہماری ابتلا بنیادی طور ایک ہی ہے ، ہم منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اس کا نام کبھی ایوب خان رکھ دیتے ہیں اور کبھی اسے یحییٰ خان کہتے ہیں۔ کبھی اس کی مونچھوں کو بل دے کر پونے تین بجاتے ہیں اور مرد حق اور مرد مومن کے نعرے لگاتے ہیں ۔ کبھی اسے بغل میں کتے کے پلے دے کر کھڑا کر دیتے ہیں اور اسے پرویز مشرف کہتے ہیں۔ اب یہ مجھ سے نہیں پوچھئے کہ یہ ابتلا اصل میں ہے کیا۔ دنیا میں سات ارب اور پاکستان میں 19 کروڑ لوگ رہتے ہیں۔ سچ بولنے کا ذمہ صرف میرا تو نہیں۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اب سے تیس برس پہلے ہماری ابتلا کا نام ضیاالحق تھا ۔ یہ انگریزی محاورہ تو آپ نے سن رکھا ہو گا کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔ مشکلات دستے بنا کر خانہ انوری کا پتا پوچھتی ہیں۔ یہ محاورہ انگریزوں کے لیے درست ہو گا ہمارے ضمن میں مشکلات پوری فوج کی صورت میں نازل ہوتی رہیں۔ جہاں فوج ہوتی ہے وہاں جنگ بھی ہوتی ہے ۔ تو مصیبت کا نام ضیاالحق تھا اور جنگ ہم پہ افغان جہاد کی صورت میں مسلط کی گئی۔ امریکی ان دنوں ہمارے دوست تھے اور دوست کا دوست بھی دوست ہوتا ہے۔ سو ہمارے دوسرے دوست کا نام سعودی عرب تھا۔ ان دونوں کے پیسے تھے ۔ افغانوں کی زمین تھی اور پاکستان ایک ایسی دلدل میں اترتا جا رہا تھا جس سے ہم ابھی تک باہر نہیں آسکے۔

ان دنوں پاکستان میں سوویت یونین کے سفیر کا نام سمرنوف تھا۔ یہ حضرت بھی ایک طرفہ نمونہ تھے۔ پاکستان بغیر اعلان کیے روس کے ساتھ حالت جنگ میں تھا اور سمرنوف کبھی کراچی ، کبھی کوئٹہ او رکبھی لاہور کا دورہ کرتے تھے ۔ادبی تقریبات میں شریک ہوتے تھے ۔مذاکروں کی صدارت کرتے تھے ۔اگر پاکستان نے افغان سرزمین پر روسیوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا تو سمرنوف کی ملنساری سے ضیاالحق کی جان ضیق میں تھی۔ لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں ایک سیمینار کی صدارت سمرنوف کر رہے تھے ۔ جماعت اسلامی کے صالح نوجوانوں نے ہوٹل پر حملہ کر دیا ۔ یہ خاکسار ایک تو بزدل تھا ، دوسرے گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا ۔ جھگڑے کی آواز سنتے ہی بھاگ نکلا اور محفوظ فاصلے پر ایک باڑ کی اوٹ سے معرکہ دیکھتا رہا۔ اگر بھاگتا نہیں تو مارا جاتا اور اگر مشاہدہ نہیں کرتا تو آپ کو یہ قصہ کون سناتا۔ بھگدڑ کا عالم تھا۔ حملہ کرنے والوں کو معلوم تھا کہ ان کی شورہ پشتی کو ریاست کی پشت پناہی حاصل ہے ۔حملے کا نشانہ بننے والے جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ۔ اچانک ہال کے اندر سے تین نوجوان برآمد ہوئے۔ اجنبی وضع کی شلوار قمیضوں میں ملبوس یہ جوان مشتعل حملہ آوروں کی لاٹھیوں اور پتھراﺅ کے سامنے ڈٹ گئے ۔گملے اٹھا اٹھا کر مقابلہ کرتے رہے۔ زخمی ہوتے رہے ۔ حملہ کرنے والوں کو مزاحمت کی عادت نہیں تھی۔ بیس پچیس سورماﺅں کا جتھا تین جوانوں کی بہادری کا سامنا نہ کر سکا اور پسپا ہو گیا۔ ان تین جوانوں میں ایک لہولہان ، دھان پان جوان کے خدوخال میرے دل میں کھب گئے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ آگے چل کر اس اجنبی سے تعلق زندگی کے الطاف کا حصہ بن جائے گا۔ آپ اس نوجوان کو پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری کے نام سے جانتے ہیں۔ محبت کرنے والے انہیں صرف شاہ محمد یا پھر ڈاکٹر مری کے نام سے پکارتے ہیں اور ان سے محبت کرنے والے بہت ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں انہیں کوئی نام نہیں دیتا۔ خواجہ غلام فرید کا ایک مصرعہ آپ کی نذر ہے۔ میں سمجھتا ہوں خواجہ صاحب نے اپنی بصیرت کی مدد سے ایک صدی پہلے شاہ محمد مری کو بھانپ لیا تھا اور ان کا تعارف بھی کرا دیا تھا۔

شاہ رانجھا البیلا جوگی جادوگر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments