برادر حریف ممالک


پاکستان کے چار ہمسائے ہیں۔ افغانستان، ایران، بھارت اور چین۔

پاکستان کا افغانستان کے بارے میں سرکاری موقف:
برادر مسلمان ہمسائے افغانستان کا برِصغیر سے مذہبی، ثقافتی، تاریخی، نسلی بندھن ہے۔ پاکستان نے اچھے برے حالات میں ہمیشہ افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔ بیرونی مداخلت سے پاک مستحکم، خوشحال، خودمختار افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔

پاکستان کی افغانستان کے بارے میں عملی سوچ۔
بھارت پاکستان کا کھلا تو افغانستان پوشیدہ دشمن ہے۔ دونوں نے پاکستان کا وجود دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ واحد افغانستان ہی تھا جس نے انیس سو سینتالیس میں پاکستان کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت دیے جانے کی قرارداد کی مخالفت کی۔ بھارت کو جب پاکستان کے سینے میں چھرا گھونپنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ براستہ افغانستان پاکستانی مفادات پر حملہ آور ہوتا ہے۔

افغانستان کے ہر اہم شہر میں بھارتی قونصل خانے آخر کیوں؟ ہرات، قندھار اور جلال آباد کے بھارتی سفارتی مراکز دراصل را کا فارورڈ بیس ہیں۔ بھلے وہ پختونستان کے حامی تھے، الذوالفقار کے چھاپہ مار یا کل اور آج کے بلوچ علیحدگی پسند۔ نام بھلے اجمل خٹک تھا، نواب خیر بخش مری، مرتضی بھٹو یا براہمداغ۔ یہ سب افغانستان میں پناہ حاصل کرتے تھے اور ہیں اور افغان اور بھارتی انٹیلی جنس کے اشاروں پر ناچتے تھے اور ہیں (پہلے یہ تین ایجنسیاں تھیں مگر کے جی بی کی وفات کے بعد دو رہ گئیں)۔

چنانچہ بھارتی اور افغان اسٹیبلشمنٹ کے عزائم ناکام بنانا اور اپنی مغربی سرحد کو محفوظ رکھنا پاکستان کے قومی اسٹرٹیجک مفاد کا کلیدی جزو ہے تا کہ افغانستان کسی پاکستان دشمن علاقائی یا بین الاقوامی طاقت کا مستقل اڈہ نہ بن سکے۔

افغانستان کا پاکستان کے بارے میں سرکاری موقف۔
افغانستان کا پاکستان سے وہی تعلق ہے جو ناخن کا گوشت سے، چولی کا دامن سے۔ پاکستان نے مصیبت کے وقت لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کر کے ہمیشہ ایک مسلمان بھائی کا حق ادا کیا ہے۔ غلط فہمیاں تو جڑواں بھائیوں میں بھی ہو جاتی ہیں مگر اتنی ہی تیزی سے دور بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے افغانستان کا اخلاص ہی تو ہے کہ ستر برس میں بھارت اور پاکستان کے مابین کئی جنگیں ہوئیں مگر افغانستان نے صورتِ حال سے کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا اور پاک بھارت تعلقات میں عملاً غیر جانبداری نبھائی۔ پاک افغان رشتہ کچھ ایسا ہے کہ کسی ایک کی کمزوری دوسرے کی طاقت بن ہی نہیں سکتی۔

افغانستان کی پاکستان کے بارے میں عملی سوچ۔
جب سے پاکستانی ریاست وجود میں آئی اس نے افغانستان کو مسلسل اپنے حلقہِ اثر میں رکھنے کی ناکام کوشش کی اور اس مقصد کے لیے ہر افغان حکومت کے مخالف کو پوشیدہ مدد فراہم کی۔ پاکستان اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی تلاش میں افغانستان کو ایک کمزور ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے ظاہر شاہ سے اشرف غنی تک پاکستان کی کسی افغان انتظامیہ سے نہیں بنی۔ جس بھی افغان حکومت یا گروہ نے پاکستان کی جانب خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا اس کوشش کا اختتام پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دہرے معیارات کے سبب مزید شکوک و شبہات پر ہی ہوا۔ مگر افغانستان سے پاکستان کی ہمسائیگی ایک جغرافیائی مجبوری ہے۔

پاکستان کا ایران کے بارے میں سرکاری موقف۔
ایران و پاکستان یک جان دو قالب ہیں۔ لباس، رہن سہن، اردو فارسی کے لسانی و مشترکہ ادبی رشتے اور مشترکہ تاریخی میراث نے دونوں کو بھائی چارے کی اٹوٹ لڑی میں پرو رکھا ہے۔ دونوں میں کوئی سرحدی جھگڑا نہیں۔ دونوں آڑے وقت کے ساتھی اور علاقائی ساجھے دار ہیں۔ دونوں برادر ممالک باہمی اقتصادی تعلقات کے امکانات سے بھر پور ہیں۔ ایران پر سے عالمی پابندیاں ہٹنا پاکستان کے بھی اتنے ہی مفاد میں ہے جتنا ایران کے۔

پاکستان کی ایران کے بارے میں عملی سوچ۔
شاہی ایران اور پاکستان اور ایران و خلیجی ریاستوں کے تعلقات مثالی تھے کیونکہ سب امریکی کیمپ میں تھے۔ تاہم اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران بہت بدل گیا۔ نئے ایران نے علاقائی رشتوں کو مذہبی عینک سے پرکھنا شروع کر دیا۔ امریکی حلیف ہونے کے سبب پاکستان کے بارے میں بھی ایرانی رویہ دوستانہ سے معاندانہ ہوتا گیا۔ یوں پاکستانی سرزمین ایران اور سعودی فرقہ بندی کا میدانِ جنگ بن گئی۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے بارے میں بھی ایرانی و پاکستانی مفادات ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ ایران نے پاکستانی ترجیحات و حساسیت کا لحاظ کیے بغیر بھارت سے پینگیں بڑھا لیں۔ چنانچہ کسی بھی ممکنہ علاقائی عدم توازن سے بچنے کے لیے ایران کی حریف خلیجی ریاستوں سے اسٹرٹیجک قربت بڑھانا پاکستان کی علاقائی مجبوری ہو گئی۔ آج ایران، بھارت اور افغانستان ایک جانب اور پاکستان و خلیجی ممالک دوسری جانب۔ شاہ کے دور میں ایران نے بلوچستان کو مستحکم رکھنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن موجودہ ایرانی قیادت پاکستانی بلوچستان کو غیر مستحکم رکھنے کی بھارتی پالیسی کا حصہ بن گئی۔ پاکستان چونکہ ایران سے ملنے والی سرحد کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے لہذا ایران سے کھلے عام دشمنی بھی مول نہیں لے سکتا مگر ایرانی عزائم پر اعتبار بھی نہیں کر سکتا۔

ایران کا پاکستان کے بارے میں سرکاری موقف۔
عرب کا تو عجم اور برصغیر سے محض مذہبی رشتہ ہے مگر عجم اور برِصغیر تو تاریخ، پکوان، اقبال لاہوری، سعدی، حافظ، ثقافت غرض ہر تہذیبی شعبے میں شیر و شکر ہیں۔ پچھلے ستر برس میں اگر کوئی سرحد سب سے پرامن رہی تو وہ پاک ایران سرحد ہے۔ آنے والے دنوں میں باہمی اقتصادی رشتے پھلنے پھولنے کے امکانات پہلے سے کہیں روشن ہیں۔ ایران کی ہمیشہ خواہش رہی کہ پاکستان اپنے اندرونی مسائل پر جلد از جلد قابو پا لے کیونکہ مستحکم پاکستان خطے کی اہم ضرورت اور ایران کے بنیادی مفاد میں ہے۔

ایران کی پاکستان کے بارے میں عملی سوچ۔
پاکستان خطے میں امریکی سعودی مفادات کا نگراں ہے۔ سنی اکثریتی ایرانی بلوچستان میں جنداللہ اور جیش العدل جو گڑبڑ کر رہے ہیں اس کے ڈانڈے سرحد پار ملتے ہیں۔ مگر پاکستان میں شیعہ اقلیت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ایران پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بگاڑ کو حتی الامکان روکے۔ دعوے اپنی جگہ لیکن پاکستان ایران سے اقتصادی تعاون اس حد تک نہیں بڑھا سکتا کہ خلیجی ممالک سے پاکستان کے اقتصادی مفادات کو زک پہنچے۔ چنانچہ اس بساط پر اگر کھیلنا ہے تو ایران بھارت کی اہمیت نظرانداز نہیں کر سکتا۔ بھارت نہ صرف ایران کا اہم تجارتی پارٹنر ہے بلکہ ایرانی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے بھارت کا تکنیکی تعاون نہایت ضروری ہے۔ یہ تعاون پاک بھارت تعلقات کا یرغمال نہیں ہو سکتا۔

پاکستان کا بھارت کے بارے میں سرکاری موقف۔
دو طرفہ تعلقات معمول پر لانے میں بنیادی رکاوٹ کشمیر ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو جنوبی ایشیا میں ترقی کے سوتے پورے جنوبی ایشیا کو سیراب کر سکتے ہیں اور بڑا ملک ہونے کے سبب اس معاملے میں پہل بھارت کو ہی کرنا ہو گی۔

پاکستان کی بھارت کے بارے میں عملی سوچ۔
مذہبی و سیاسی دشمنی کی تاریخی جڑیں اس قدر گہری ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ بھارت سے محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ وہ کبھی بڑا بھیا بننے سے باز نہیں آئے گا۔

بھارت کا پاکستان کے بارے میں سرکاری موقف۔
اگر تجارتی و اقتصادی تعاون کو باقی متنازعہ معاملات پر ترجیح دی جائے تو رفتہ رفتہ تمام مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ اگر پاکستان دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پا لے تو پھر اعتماد سازی کا کام ٹریک سے اترے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے اور چند برس میں ایسا مشترکہ جامع میکنزم بن سکتا ہے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام مسائل کا تسلی بخش حل نکل سکے۔

بھارت کی پاکستان کے بارے میں عملی سوچ۔
پاکستان ناقابلِ اعتبار ہے لہٰذا اس پر ہر وقت نگاہ رکھنا لازمی ہے۔ پاکستان صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے چنانچہ اس پر علاقائی و بین الاقوامی دباؤ برقرار رہنا چاہیے۔

پاکستان کا چین کے بارے میں سرکاری موقف۔
پاک چین دوستی ہمالہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔

پاکستان کی چین کے بارے میں عملی سوچ۔
مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے / آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے۔ ۔ ۔

چین کا پاکستان کے بارے میں سرکاری موقف۔
پا چن یو ای وان سوئے وان سوئے ( پاک چین دوستی زندہ باد )

چین کی پاکستان کے بارے میں عملی سوچ۔
پاکستان چین کا اسرائیل ہے (جنرل ژیانگ گوانگ کائی آف پیپلز لبریشن آرمی)

مورل آف دی اسٹوری۔
: پاکستان کی افغانستان، ایران اور بھارت سے اس لیے نہیں بنتی کیونکہ تینوں ممالک سے پاکستان کا تاریخی، ثقافتی، مذہبی وراثتی، لسانی اور انفرادی و اجتماعی رہن سہن کا رشتہ ہے۔ پاکستان اور چین کی اس لیے بنتی ہے کیونکہ فرد سے فرد کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کا اسٹیبلشمنٹ سے اسٹرٹیجک رشتہ ہے۔ یہ رشتہ لسانی، تاریخی، ثقافتی، مذہبی، وراثتی، انفرادی بوجھ سے پاک ہے لہذا آسان اور دو طرفہ زود ہضم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).