’سوچا تھا بیٹا ملک سے باہر جائے گا تو غربت بالآخر ختم ہو گی‘


ماجد کے والد

بلوچستان میں مارے جانے والے ماجد گھمن کے والد قیصر محمود کا ایک اور بیٹا دبئی میں ہے

سیالکوٹ کے گاؤں جیٹھیکے پہنچی تو ایک مقامی شخص سے پوچھا کہ اسلم کا مکان کون سا ہے جن کا بیٹا بلوچستان کے واقعے میں محفوظ واپس لوٹا ہے؟

اس پر ادھیڑ عمر شخص نے جواب میں پوچھا کہ ’وہ کمہار کا گھر؟‘ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر کہا: ’تھوڑا آگے جائیں، ایک کھمبے کے پاس دائیں کو مڑ جائیں اور کسی سے پوچھ لیں تو وہ بتا دے گا۔‘

کمہار چند دہائیاں پہلے تک قِسم قِسم کے برتن بنانے کے فن میں مہارت سے پہچانے جاتے تھے، مگر پھرمٹی کے برتنوں کی جگہ المونیم اور سٹیل نے لے لی تو کوزہ گری کا یہ فن بھی ماضی کا قصہ بن گیا۔

یہ بھی پڑھیے

’فائرنگ بہت زیادہ تھی اس لیے ہم ڈر گئے اور بھاگنے لگے‘

بلوچستان: پنجاب سے تعلق رکھنے والے 15 افراد کی لاشیں برآمد

تنگ سی گلی میں داخل ہوں تو پہلے اسلم کمہار کا کرائے کا مکان ہے جہاں آج عید کی سی خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ اسی مکان سے کچھ فاصلے پر قیصر محمود کا کچی اینٹوں کا مکان بالکل الگ احساس دے رہا ہے۔ یہاں کی فضا سوگوار ہے۔

دونوں گھروں میں فاصلہ زیادہ نہیں لیکن خوشی اور غمی مختلف انتہاؤں پر دکھائی دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں تربت کے قریب گذشتہ ہفتے پیش آنے والے وہ دو واقعات جن میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ان کے تانے بانے انھی غربت کے مارے علاقوں سے ملتے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں قیصر محمود کا 17 سالہ بیٹا ماجد گھمن شامل ہے، اور بچ جانے والوں میں اسلم کا 16 سالہ بیٹا حیدر علی ہے جو آج ہی گھر لوٹا ہے۔

ماجد گھمن اور حیدر علی سمیت اس گاؤں کے تین لڑکے اُس قافلے کا حصہ تھے جسے حکام کے مطابق مبینہ طور پر ‘بلوچ علیحدگی پسندوں نے نشانہ بنایا۔’

حیدر علی اور والدین

حیدر علی کے والدین خوش ہیں کہ بیٹا زندہ سلامت لوٹ آیا

یہ تمام افراد روز گار کی تلاش میں کچھ ایجنٹوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر ترکی اور یونان جا رہے تھے اور انھیں پہلے مرحلے میں بلوچستان کے راستے ایران میں داخل ہونا تھا۔ اس مقصد کے لیے صوبے کے انتہائی غیر محفوظ علاقے کا انتخاب کیا گیا۔

حیدر علی معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اوپر تلے کئی قمیضیں پہنے حیدر علی کی آواز بات کرتے ہوئے کپکپا رہی تھی۔ حیدر علی کے مطابق انھیں بیرون ملک پہنچانے کے وعدے کرنے والا ایجنٹ اس سفر کے دوران کہیں بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ کوئٹہ پہنچنے پر بعض نقاب پوش افراد نے انھیں اپنے ساتھ لیا اور پنجگور آ گئے۔ پنجگورمیں انھیں کسی دوسرے نقاب پوش گروہ کے حوالے کیا گیا۔

یہاں 15 نوجوانوں پر مشتمل ایک اور قافلہ پہلے سے موجود تھا۔ ‘ہمارے چہروں پر کپڑا چڑھا دیا گیا، سامان اور موبائل فون لے لیا، مارتے پیٹتے ہم سب کو آپس میں مکس کر دیا گیا اور 15، 15 افراد کے دو قافلے تیار کر کے دو ڈالوں (ایسی بڑی گاڑی جس کی پچھلے حصے پر چھت نہ ہو) میں لاد دیا۔‘

یہ بتاتے ہوئے حیدر علی کی آنکھوں میں خوف مزید گہرا اور زبان لڑکھڑانے لگی۔

یہی وہ وقت تھا جب حیدر علی اپنے جگری دوست ماجد گھمن سے جدا ہوا۔ مگر یہ دونوں گاڑیاں ایک ساتھ ‘ایران کی سرحد پار کرنے’ تربت کی جانب روانہ ہوئے۔

حیدر علی کے مطابق ان کی آنکھیں اور چہرہ ڈھانپ دیا گیا تھا اور انھیں کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کس علاقے میں ہیں۔

‘اچانک ڈالا رکا اور یہ سمجھ آئی کہ شاید کوئی خرابی ہو گئی ہے، ڈرائیور اور دوسرے لوگ اس سے اتر گئے۔’ حیدر علی کہتے ہیں کہ دوسری گاڑی ان سے کچھ فاصلے پر تھی۔ ‘ایک دم شدید فائرنگ کی آواز آئی، یہ بہت قریب سے آ رہی تھی، ہم نے گاڑی سے چھلانگ لگائی اور بھاگنے لگ گئے، وہ رات کا وقت تھا اور میں نہیں جانتا کہ میں کس طرف بھاگ رہا تھا، اور باقی سب کہاں گئے، زندہ بھی تھے یا نہیں۔’

حیدر علی کے مطابق وہ رات بھر انجانی سمت میں بھاگتے رہے اور بالآخر چائے کے ایک کھوکھے پر پہنچے جہاں ایک پٹھان نے اس وقت ان کی مدد کی۔ ‘پٹھان ہمیں بس اڈے پر لایا اور گاڑی پر بٹھایا، میرے ساتھ گوجرخان کا ایک لڑکا تھا، ہم وہاں سے کوئٹہ آئے اور گھر اطلاع دی کہ ہم واپس آ رہے ہیں۔’ تب حیدر علی نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ بیرون ملک جانے والے دیگر افراد زندہ ہیں یا نہیں۔

دوسری جانب ماجد گھمن کے گھر سوگ کا عالم ہے۔ ان کے والد قیصر محمود گھر کے باہر خالی پلاٹ میں سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ‘سوچا تھا یہ بیٹا ملک سے باہر جائے گا تو غربت بالآخر ختم ہو گی۔’

قیصر محمود گاؤں ہی میں کسی کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک اور بیٹا دبئی میں ہے ‘جس کے پیسوں سے کچا گھر کھڑا کیا ہے۔’

13 نومبر کے بعد ماجد گھمن کے ساتھ ان کے اہل خانہ کا جب دو روز تک رابطہ نہ ہوا تو انھوں نے ایجنٹ کو فون کیا۔ ماجد کی والدہ بتاتی ہیں کہ ‘ایجنٹ نے ہمیں یہ بتایا کہ ہمارے بچے پولیس نے گوادر میں گرفتار کر لیے ہیں اور ان کی رہائی کے لیے مزید رقم چاہیے۔’ ان کے مطابق ایجنٹ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے بچے ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ یہ رابطہ 15 نومبر کو ہوا جب ان افراد کی لاشیں تربت سے مل چکی تھیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ایجنٹ غیر قانونی طور پر باہر لے جانے اور سنہرے مستقبل کا جھانسہ دے کر غریب گھروں کے ان بچوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔ ‘یہ ایجنٹ شاید ان نوجوانوں کو کسی اور گروہ کو فروخت کرتے ہیں اور خرید و فروخت کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک یہ افراد یورپ پہنچ جائیں یا پھر سرحد پار کرنے کی کوشش میں گرفتار کر لیے جائیں۔’

ان کے خیال میں ایجنٹ دیگر گروہوں سے قیمت وصول کرنے کے ساتھ ساتھ غریب اہل خانہ سے بھی مختلف بہانوں سے رقم بٹورتے رہتے ہیں۔

حیدر علی

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے زندہ بچ جانے والے حیدر علی کی زبان لڑکھڑانے لگتی ہے

خیال رہے کہ پنجاب سے بڑی تعداد میں نوجوان روزگار کے مواقع نہ ہونے اور انتہائی غربت کی وجہ سے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ یہاں غیرقانونی طور پر ملک سے باہر لے جانے والے ایجنٹ زیادہ تر لوگوں سے ‘ایڈوانس رقم لیتے ہیں جو ایک سے دو لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔’

تاہم بعض اوقات ایجنٹ وقتی طور پر نصف رقم لیتے ہیں اور باقی رقم یہ کہہ کر وصول کرتے ہیں کہ باہر جانے والے فرد گرفتار یا اغوا ہو گیا ہے، رہائی یا بازیابی کے لیے رقم درکار ہو گی۔’ مقامی انتظامیہ کے مطابق پنجاب کے صرف اِس ایک گاؤں کے 40 فیصد سے زائد نوجوان غیرقانونی طور پر دیگرممالک میں مقیم ہیں۔

زندہ واپس آنے والے حیدر علی کے مطابق وہ کل 30 لوگ تھے۔ جن میں سے 20 کی لاشیں سیکیورٹی فورسز کو دو مختلف علاقوں سے ملی ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق تربت کے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر جمیل احمد بلوچ کا کہنا ہے کہ 15 افراد کو قتل کرنے کے بعد ‘پانچ لڑکوں کو ممکنہ طور پر اغوا کیا گیا تھا جنھیں دو دن بعد مار دیا گیا۔‘

یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان ٹرالوں میں لدے باقی آٹھ افراد کہاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp