کیا میں ن لیگی ہوں؟


ڈیرہ اسماعیل خان کیس کے حوالے سے برادر محترم سلیم صافی کے لکھے کالم کو اپنی وال پر شئیر کیا تو ایک عزیز دوست نے نیچے رائے میں ن لیگ سے وابستگی کی “تہمت” دھری جس سے چہار جانب دریچوں سے کئی خیالا ت جھانکنے لگے۔انہی میں سے کچھ کو پکڑ پکڑ کر یہاں پیش کر رہا ہوں۔
انسانی درندگیوں اور ظلم کی داستانوں کو ہم نے تاریخ میں زمانہ جاہلیت کے نام سے ایک خاص جگہ دے کر ٹیکسٹ بکس کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ ان داستانوں میں نمائندہ حکایات لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کے حوالے سے ہیں گو کہ ان کی مثالیں (بلوچستان کا واقعہ) آج بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان حکایات میں کسی دشمن کی لڑکی کو ننگا گھمانے کے حوالے واقعہ نہیں ملتا شاید مؤرخ قلت وقت کے سبب لکھنا بھول گیا ہو۔ کچھ دماغ یہ سوچتے ہوئے ہنوز حیرت میں دیکھے گئے کہ ان واقعات کا تسلسل اس حقیقت کی گواہی ہے کہ انسان سماجی ترقی کے بجائے مزید گرتا چلا جا رہا ہے۔ ان کی حیرت اگر پسماندہ ممالک ہے حوالے سے تو بجا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار شاید ان کی حیرت کو بڑھاوا نہ دے سکیں۔ تیسری دنیا میں سیاست اور مذہب کی پیداوار۔۔ جامد ذہن ہمیں اکساتا ہے کہ یہ معاملہ قابل توجہ ہے۔ جامد ذہن “کنفرمیشن تعصب” کی اندھا دھند پیروی کرتا ہے جس سے اس کا حقیقت سے کوسوں دور کھڑا ہونا کچھ ایسا غیر منطقی نہیں۔
اگر ، مگر ، چونکہ ، چنانچہ ۔۔خوف کے ہم عمر کمزوربچے ہیں۔ خوف سے نجات کی صورت میں خود اعتمادی کی صحت منداکلوتی اولاد “فل سٹاپ ” ہے۔ انسانی المیہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جنم لے یا مرید کے میں ، ہمارے لیے بحیثیت انسان مذہب و سیاست سے بالاتر ہو کر اتحاد کا پیغام رساں بن کر آتا ہے۔ یہ پیغام رساں ترقی یافتہ ممالک میں طمانیت پاتا ہے ہمارے ہاں رویوں کو دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے۔
ایسے واقعات پر عقلی رویہ صرف یہ ہے کہ اپنی سیاسی و مذہبی وابستگیوں کے ٹیگ کو ایک طرف پھینک کر اتحاد کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے علم میں ہو کہ معاشرے میں اس حوالے سے کوئی لچک نہیں ہے ، نہ ہی کوئی ایسا واقعہ ہونے کی صورت میں ہمارے لیے کوئی راہ فرار ہے۔ جب ایک لیڈر کے ارد گرد ایسے مینڈکوں کو اجتماع ہو جو اسے یہ کہہ کر کر تسلی دیں کہ ٹھیک ہے بری حرکت ہوئی ہے لیکن ہمارے مخالفین خواہ مخواہ شور مچا رہے ہیں ایسے چار واقعات تو دوسرے صوبے یا گروہ میں بھی ہو چکے ہیں توایسی تسلیوں سے رہنماؤں کے اندر “مدافعاتی میکانیت” طاقتور ہو کر اسے مجرمانہ جواز سے نوازتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہاں ابھی تک تو “کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا ” کی بازگشت پوری طاقت سے گونج رہی ہے وہاں انسانی المیے بھاڑ میں جائیں۔ ہر صوبے میں انسان سسک رہا ہے۔ آپ جیسے ہی بات کرنے کی کوشش کریں تو سیاسی و مذہبی تاویلات و توجیہات کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ مقام شرم ہے کہ ہمارے بچے ہماری خواتین ہمارے معصوم شہری ، بدترین تعصباتی جنگ کے اندھے کنویں میں گرتے جا رہے ہیں۔ ان کی لاشیں بے نام، کفن تار تار، قبریں گمنام ہیں۔ ذرا تحریک انصاف اور نواز لیگ کی بک بک اور ہندو مسلم کی جھک جھک سے بالا تر ہو کر حالیہ خبریں دیکھئے۔۔۔
فیصل آباد: مدرسے میں ہلاکت کے بعد بالائی منزل سے نیچے بچے کی لاش پھینک دی گئی تھی۔ملزم نے انکشاف کیا کہ اسے بھی اپنے دو قاری بدفعلی کا نشانہ بناچکے ہیں، وہ حفظ قرآن کے بعد اب اسی مدرسے میں معلم کی خدمات سرانجام دے رہا ہے ، رات دس بجے سوئے ہوئے بچے کو اٹھایا، چھت پر لے جا کر بدفعلی کی اور قتل کرکے نیچے گلی میں پھینک دیا۔ایک بچے کو بد فعلی کے بعد اس سے پہلے بھی قتل کر چکا ہے۔
کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں قائم حسین ہزارہ گوٹھ میں ملزمان نے 3 سالہ بچے کو بدفعلی کے بعد قتل کردیا۔ملزم کا کہنا تھا کہ ان تنیوں نے معصوم بچے کے ساتھ بدفعلی کی جس پر بچے نے چیخ و پکارشروع کردی تو اس نے بچے کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور بدفعلی کرنے کے بعد بچے کو پانی کی ٹینکی میں پھینک دیا جہاں وہ دم گھٹنے سے ہلاک ہوگیا۔
لاہور:مصطفی آ باد کے علاقہ میں اوباش نوجوان نے 6 سالہ محلے دار بچے کو بدفعلی کا نشانہ بنا نے کے بعد پا نی والی ٹینکی میں پھینک دیا اور فرار ہوگیا
پشاور: حیات آباد میں نجی اسکول کا پرنسپل لڑکیوں کیساتھ بدفعلی کے الزام میں گرفتار
پاکستان میں بچوں سے جنسی بدفعلی میں صوبہ پنجاب پہلے نمبر ،گزشتہ سال بچوں سے جنسی بدفعلی میں معصوم لڑکیوں کی شرح 61فیصد جبکہ لڑکوں کی شرح 39فیصد تھی
قصور کے مختلف دیہات کے دو سوچوراسی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا اسکینڈل منظرعام پرلے آیا
بلوچستان میں تین خواتین کو زندہ درگور کرنے والا ملزم کراچی سے گرفتار

شکر گڑھ کے نواحی علاقے دین پور کا رہائشی شخص غربت سے تنگ تھا اور گزشتہ رات 2 بجے اپنی دو بچیوں کو خاموشی سے اپنے ساتھ گھر سے باہر لے گیا، جب گھر واپس آیا تو اہلیہ نے اسے بتایا کہ دونوں بیٹیاں گھر پر نہیں ہیں جس پر اس نے بتایا کہ وہ دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر گیا تھا اور اس نے دونوں کو نالہ بہی کے قریب زندہ دفنا دیا ہے۔
بچیوں کی ماں کی اطلاع پر جب رشتہ دار اور دیگر اہل محلہ نے نشاندہی کی گئی جگہ سے بچیوں کو نکالا تو 7 سالہ مریم دم گھٹنے کے باعث جاں بحق ہو چکی تھی جب کہ 11 سالہ زینب کی حالت تشویشناک تھی
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں غیرت کے نام خواتین زندہ درگور کر دی گئی۔
پشاور: مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشال خان کے قتل کی تفتیش کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آگئے، رپورٹ کے مطابق مرنے سے قبل مشال نے کہا کہ میں مسلمان ہوں، کلمہ پڑھا اور اسپتال پہنچانے کی التجا کی۔ مشال خان کے خلاف منصوبہ بندی کرکے غلط توہین رسالت کا پروپیگنڈا کیا گیا۔
ڈی آئی خان میں لڑکی کو برہنہ کر کے بازار میں گھمائے جانے کا واقعہ۔
یہ چند خبریں آپ نے پڑھیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا تعلق ن لیگ سے ہو اور پشاور سے متعلقہ خبر پڑھ کر دل کو کچھ طمانیت محسوس ہوئی ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو اور لاہور و قصور کی خبریں پڑھ کر دل کو تسلی ہوئی ہو کہ ” پٹواریو ۔۔ اور دو نواز لیگ کو ووٹ”
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے دل میں کچھ ایسا گماں گزرا ہو کہ “کوئی مسلمان ایسی حرکت نہیں کر سکتا” یا کہیں ایسا تو نہیں کہ بھارت میں کسی ایسی ہی خبر پر طمانیت ہوئی ہو کہ وہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے۔۔ تو آپ زمین پر بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ بوجھ بھی ایسا کہ زمیں اکتا جائے۔ اس ملک میں انسانی المیے روزانہ کی بنیادوں پر جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ملک کے مجرم ، تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان، سیکیورٹی ادارے، عدالتیں ، میڈیا سب ہیں۔ ذرا میڈیا کی جانب تھوڑی دیر کے لیے آئیے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لڑکی برہنہ کیس پر ایک خبر کچھ یوں لگائی گئی۔۔۔”ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک 16 سالہ لڑکی برہنہ حالت میں گلیوں اور محلوں میں گھومتی رہی، اس کے ساتھ کون تھا؟ وجہ کیا تھی؟ لرزہ خیز خبر”
اب بتائے ، میرا تعلق کس سے ہے؟ کونسی نواز لیگ۔۔کونسی پی ٹی آئی ۔کیسی پیپلز پارٹی۔۔کہاں کی اسٹیبلشمنٹ ۔۔کون سا فرقہ۔۔کیسا میڈیا!
نواز شریف کا قافلہ ۔۔ایک بچے کو کچلنے کے بعد اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی بیٹی کو برہنہ گھمانے کے بعد عمران خان کو آئی جی کی تسلی کافی محسوس ہوتی اور وہ اپنی توجہ واقعہ سے متعقہ سیاسی معاملات پر صرف کرتے نظر آتے ہیں۔لعنت جاتی امرا اور بنی گالا کے محلات پر!
بابا میں تو ایک انسان ہوں۔ خیبر پختونخوا سے کوئی اچھی خبر آتی ہے تو فیس بک پر شئیر کرتا ہوں۔ بلوچستان سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتاہے تو اسے فیس بک کی کھڑکی سے آپ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جان لیجئے پورے پاکستان میں حالات ابتر ہیں۔ پاور گیمز ہیں۔ کھینچا تانی ہے۔ کوئی بھارت سے ڈرا کر اپنا مطلب نکال رہاہے اور کوئی جہنم سے ڈرا کر اپنا سودا بیچ رہا ہے۔ اس دوران ۔۔معصوم بچے۔۔(تین سالہ بچے ۔۔۔سماج 5 ہزار برس کے سفر کے بعد بھی کوئی ایسی گالی ایجاد نہیں کرسکا جو ایسے لوگوں کو دی جا سکے) بدفعلی کا شکار ہو کر ۔۔پانی کی ٹینکی میں ڈالے جا رہے ہیں ۔۔گلا گھونٹا جا رہا ہے۔۔ زندہ دفن کیا جا رہا ہے ۔۔۔ چھتوں سے نیچے پھینکا جا رہا ہے۔۔لڑکیوں کو زندہ دفنایا جا رہا ہے۔۔مشال جیسے بچوں کو سر عام برہنہ کر کے کچلا جا رہا ہے۔۔۔16 سال کی بیٹی کو برہنہ گلیوں میں گھمایا جا رہا ہے ۔۔بچوں کے ساتھ بد فعلی کے بعد تیزاب کے ڈرم میں ڈالا جا رہا ہے ۔۔
ذرا تصور میں لائیے اس 10 سالہ بچے کو جس کوسوتے ہوئے اٹھا کر ۔۔چھت پر لےجایا گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میرا چاند کیا سوچ رہا ہوگا؟ ۔۔پھر چھت۔۔کیا سوچ رہا ہوگا؟۔۔پھر شلوار ۔۔کیا سوچ رہا ہو گا؟ ۔۔پھر درد۔۔۔کیا سوچ رہا ہوگا؟ ۔۔پھر خون۔۔کیا سوچ رہا ہوگا؟ ۔۔پھر روتے روتے آتی ہچکی۔۔۔کیا سوچ رہا ہوگا؟ ۔۔۔پھر چھت سے نیچے تک کا سفر ۔۔کیا سوچ رہا ہوگا؟ پھر اندھیرا۔۔اندھیرا۔۔اندھیرا
لائیے میرے اس بچے کو واپس لائیے اور پوچھئے اس سے کہ ۔۔تم نواز لیگ کے ہو یا پی ٹی آئی کے۔۔یہی میرا جواب ہو گا!
خواتین کو جب بلوچستان میں دفنانے کے لیے لے جایا گیا تو شاید وہ جانتی ہوں گی کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ اگر وہ جانتی تھیں تو ۔۔کیا سوچ رہیں ہوں گی؟۔۔۔جب گڑھے میں پھینکا گیا۔۔تو کیا سوچ رہیں ہوں گی؟ ۔۔جب بیلچے سے ٹھنڈی مٹی کا پہلا ڈھیلا ان پر گرا۔۔تو کیا سوچ رہی ہوں گی؟ ۔۔جب اندھیرا چھایا تو ۔۔کیا سوچ رہی ہوں گی؟ ۔۔جب سانس بند ہونا شروع ہوئی ۔۔تو کیا سوچ رہی ہوں گی؟ ۔۔جب ہوا کے بجائے نتھنے زور لگانے کی وجہ سے مٹی سے بھر گئے تو ۔۔کیا سوچ رہی ہوں گی۔۔انہیں واپس لائیے ان سے پوچھیے کہ ان کا تعلق کس پارٹی سے ہے؟ کیا وہ پروـاسٹیبشمنٹ ہیں یا بلوچ آزادی تحریک سے وابستہ ہیں۔۔ان کا جواب ہی میرا جواب ہو گا؟
آپ کہیں گے میں کیسا احمق ہوں کہ مرے ہوؤں کو واپس لانے کا کہہ رہا ہوں۔۔چلیے کچھ زندہ کرداروں سے گواہی لے لیجئے۔۔
جب عیسائی جوڑے میاں بیوی کو زندہ جلایا گیا تو میں ان تفصیلات میں نہیں جاتا کہ ماس کو جب آگ لگتی ہے تو انسان اپنے سامنے کھڑے انسانوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے یا ایسے سمے وہ کس نظریے کو صحیح سمجھ رہا ہوتا ہے ۔۔ لیکن اس جوڑے کے بچے اپنے ماں باپ کو جلتا دیکھ رہے تھے۔۔۔ماں اور باپ کو دیکھ رہے تھے جب انہیں آگ لگائی گئی۔۔ان شعلوں کے پیچھے سے ماں کی نگاہیں اپنے روتے چیختے بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔پھر وہ دو ۔۔کہ جن کا تعارف ماں اور باپ تھا۔۔ہیولے بنے۔۔راکھ ہوئے۔۔چند لمحوں میں رشتے کچھ ہڈیاں بنی ۔۔کچھ ماس کی سڑاند اور دو کھوپڑیاں۔۔
یہ بچے زندہ ہیں ۔۔ان سے جا کر پوچھ لیجئے ان کا تعلق ن لیگ سے ہے یا پی ٹی آئی سے۔۔اسٹیبلشمنٹ کو محب الوطن سمجھتے ہیں یا مذہبی رہنماؤں کو نجات دہندہ ؟ ۔۔۔میرا جواب تو آپ کو مل ہی جائے گا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik