کیا ابھی جمعیت کو لگام دینے کا وقت نہیں آیا؟


دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے پراسپیکٹس ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔ ان میں بہت مزے مزے کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لیبارٹری کا منظر ہے تو بہت سے لڑکے لڑکیاں منہ کھولے بیٹھے ہیں اور سامنے ان کی استاد کوئی تجربہ کر رہی ہیں۔ صاف ستھرے دھلے ہوئے منہ، نکھرے چہرے، بندھے ہو بال، شیشے کی طرح چمکتا ہوا فرش نظر آ رہا ہوتا ہے۔ لائبریری کا سین ہو گا تو بہت سے سٹوڈنٹس مختلف کپڑے پہنے سر جھکائے کتابیں پڑھتے نظر آ رہے ہوں گے، بڑی سی میز ہوگی اور اس کے اردگرد سارے بیٹھے ہوں گے۔ تصویر میں ہی عجیب سا نور بھرا ہو گا۔

ایک نظر دیکھنے والا اندازہ کر سکے گا کہ پڑھنے کی جگہ پہ کیسا پن ڈراپ سائلنس ہوتا ہو گا اس کالج میں۔ کمپیوٹر لیب دکھانی ہو گی تو دو تین شوخ چہرے عینک لگائے، سنہرے بال باندھے، لال سبز سوئیٹر پہنے کمپیوٹروں پہ جھکے نظر آئیں گے۔ پراسپیکٹس کے اس صفحے پہ رنگ ہی رنگ بکھرے ہوں گے۔

کوئی عام سا ڈسکشن کا ماحول دکھانا ہو گا تو ایک چیز ضرور نوٹ کیجیے گا، خاص طور پہ وہ لوگ خیال رکھتے ہیں کہ ملٹی ایتھنیسٹی دکھائی جائے۔ ایک نیگرو لڑکا ہو گا، ساتھ ایک فلیپینو لڑکی کھڑی ہو گی، بلانڈ سٹوڈنٹ قہقہہ مار کے ہنس رہی ہو گی اور ایک ایشین ان تینوں کو دیکھ رہا ہو گا۔ تو پراسپیکٹس کا یہ ایک صفحہ بنیادی طور پہ ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ صلائے عام ہے، جو بھی آنا چاہے آ جائے، ہمارے یہاں سے نسل پرستی کی بدبو ختم ہوئے عرصہ ہو گیا۔

ایسے ہی کسی سیمینار ہال کی تصویر ہو گی تو وہاں مرد و خواتین بزنس سوٹ پہنے دکھائی دیں گے۔ کوئی ایک پریزینٹیشن دے رہا ہو گا، دو تین کے ہاتھ میں فائلیں ہوں گی، سب انتہائی پروفیشنل اور کاروباری لگ رہے ہوں گے۔ کھیل کے میدانوں پر روشنی ڈالنی ہو گی تو اسی پراسپیکٹس کے دو تین صفحے مختص ہوں گے جن میں ایک جگہ سر جوڑے بہت سے لڑکے کھڑے نظر آئیں گے، وہ رگبی ہو گا، کہیں بہت سی چئیر لیڈرز نظر آئیں گی، سوئمنگ یا ہارس رائیڈنگ کے مناظر ہوں گے، بندہ اس قدر بھونترا جاتا ہے یہ سب دیکھتے ہوئے کہ شدت سے اپنی بے مائیگی اور دیسی پن کا احساس ہوتا ہے۔ سوچیے پراسپیکٹس دیکھ کے یہ حال ہے تو جو لوگ باہر پڑھنے جاتے ہوں گے انہیں کھلی ہوا میں کیسا تازہ سانس نصیب ہوتا ہو گا؟

ہمارے نصیب میں جو یونیورسٹیاں اور کالج آتے ہیں ان پہ ایک مدت سے ایک اندھیرا، عفونت اور یبوست مسلط ہے۔ الفاظ ڈھونڈنا پڑتے ہیں ورنہ جو کیفیت مسلط ہے وہ تو بھئی سامنے بیٹھ کے ہی بتائی جا سکتی ہے۔ اسلامی جمیعت طلبہ کے لڑکوں نے تازہ ترین جو کارنامہ کیا ہے وہ ایک اور استاد کی عزت پت اتار کے ہاتھوں میں پکڑا دی ہے۔ لاحول ولا قوة، کس چیز کی جمیعت ہے اور یہ مذہب کا کیسا استعمال ہے کہ چند لوفر لڑکے ایک استاد پہ حملہ کریں، اس کے کپڑے پھاڑیں اس کے بعد اطمینان سے چلے جائیں، ہر ایک کو معلوم ہو، پوری دنیا ان کے سنہری کارناموں کی خبریں پڑھے اور پھر بھی یہ فتنہ الدہر لوگ اسی اطمینان سے یونیورسٹیوں میں بدمعاشی کرتے رہیں؟

ان محترم استاد کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ہاسٹل میں بطور وارڈن اپنی ڈیوٹی کے دوران کچھ بینر اور پوسٹر اتروائے تھے جو اسی تنظیم کے تھے۔ مارنے والے بے شرموں نے عین فلمی سین بناتے ہوئے پہلے ان کے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھین کے گرائی اس کے بعد انہیں گریبان سے پکڑ کے دھمکیاں دینے لگے۔ تم ہمارے خلاف باتیں کرتے ہو، تم نے ہمارے بینرز کیوں اتارے۔ اگر یونیورسٹی میں رہنا ہے تو ہماری پالیسی پہ چلنا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔

کوئی حد ہوتی ہے، کیا حکومت اتنی بے بس ہو چکی ہے یا تھانے کچہری والے اس بے نتھے منہ زور گروہ کے آگے بے بس ہیں جو انہیں سیدھا نہیں کر سکتے؟ ایسا آج پہلی مرتبہ نہیں ہوا، مسلسل کتنی نسلیں اسی بیہودگی کے سائے تلے پڑھ پڑھ کے نکلتی آ رہی ہیں۔ ایک غنڈہ گردی، مسلسل بدتمیزی اور نہ ختم ہونے والے ہنگامے۔ جس کسی یونیورسٹی سے ہنگامے کی خبر آئے گی پہلا فریق اس میں یہی جماعت ہو گی، کیوں؟ کس چیز کی دیدہ دلیری ہے؟ کوئی روکنے والا نہیں ہے یا انتظامیہ ساتھ ملی ہے؟ یونیورسٹیوں میں اس طرح کی جماعت بازیاں ہوں گی تو کیسے پڑھے لکھے جینوئن بندے نکلیں گے بھائی؟ آج ہم روتے ہیں کہ دنیا کی ٹاپ پانچ سو میں بھی ہماری ایک سرکاری یونیورسٹی نہیں ہے بلکہ شاید ہزار میں بھی نہ ہو تو کل کیا ہو گا؟ شاید پہلے دس ہزار میں بھی نہ ہو، اور حق پہ نہیں ہو گا۔

نومبر 2007 میں عمران خان اس جماعت کی بدسلوکی کا نشانہ بنے، یکم اپریل 2010 کو ارتھ سائنسز کے پروفیسر افتخار بلوچ پہ اسی جماعت نے حملہ قاتلانہ حملہ کیا، پوری تسلی کر کے ہٹے لیکن افتخار بلوچ کو خدا نے بچا لیا۔ مارنے والے سے بچانے والا بے شک بہت بڑا ہے۔ 4 مئی 2011 کو پنجاب یونیورسٹی کے ملازمین پر تشدد کیا گیا کہ انہوں نے ان کا کتاب میلہ کیوں ہٹایا۔ 2012 میں بھی یہی فلم چلائی گئی، بہت سے اساتذہ مار پیٹ کا شکار ہوئے اور سی ایس پی افسروں پہ بھی تشدد ہوا، 18 مئی 2012 کے دن دو بسیں بھی جلائی گئیں، 2 دسمبر 2013 کو ہاسٹل نمبر سولہ خالی کروانے پولیس آئی تو ان پہ بھی اس جماعت کے لوگوں نے پتھراؤ کیا، جنوری 2017 میں تو طلبا یہ تک کہنا شروع ہو گئے تھے کہ پنجاب یونیورسٹی جمیعت کے ہاتھوں میں دے دی گئی ہے اور بہت حد تک آج بھی وہی محسوس ہوتا ہے۔ بلوچ اور پشتون طلبا سے جھگڑ کے صوبائی تعصب پھیلانے میں بھی اس جماعت کا بہت گھناؤنا کردار ہے۔ کوئی حد ہے؟

ڈاکٹر سردار اصغر اقبال پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں کشمیریات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ 15 نمبر ہاسٹل نیو کیمپس کے وارڈن ہیں۔ اس ہاسٹل کے اندر مذکورہ جماعت کے کچھ لڑکوں نے اپنے پوسٹر اور کچھ بڑی تصویریں جماعت کے ان لوگوں کی لگا رکھی تھیں جو طلبہ سیاست کا شکار ہو کے قتل ہوئے تھے۔ یہ تصویریں انتظامیہ کے حکم پر ڈاکٹر صاحب نے ہٹوائیں تو ان کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔ سوال یہ ہے کہ تصویر تو کیا سالم طالب علم بھی نکال دئیے جائیں تو جمیعت کون ہوتی ہے اس طرح جواب طلب کرنے والی؟ کیا اب بھی ہم ضیا آمریت میں زندہ ہیں؟ میاں شہباز شریف اگر صرف ان لوگوں کو ہی لگام دے لیں تو یہ خادم اعلی کے ہر کارنامے پہ بھاری ہو گا۔ ایسا نہیں ہوتا تو ہماری یونیورسٹیوں کا پراسپیکٹس بیس سال بعد صرف اسی جماعت کے کارناموں پہ مشتمل ہو گا۔

لائبریری ہو، کھیل کا میدان ہو، کتب میلہ ہو، لیبارٹری ہو، کمپیوٹر لیب ہو، سیمینار ہو، کلاس روم ہو، راہداری ہو، فٹ پاتھ ہوں، سڑکیں ہوں، ہاسٹل ہوں، جہاں بھی جائیں گے یہی ہم خیال مخلوق ملے گی، انہیں کے چہرے نظر آئیں گے، باقی کسی کے رہنے کی جگہ اب نہیں ہے تو اس وقت کیا ہو گی؟

پس نوشت؛ یاد رہے اس افسوسناک واقعے کی تحریری رپورٹ وائس چانسلر کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہے جس پر شعبہ کشمیریات کی انچارج اور پرنسپل اورئنٹل کالج کی تصدیق اور مذمتی نوٹس موجود ہیں۔ جو میٹنگ اس واقعہ پر اساتذہ نے کی اس کے تحریری اعلامیہ پر ڈین کلیہ علوم شرقیہ ڈاکٹر محمد سلیم مظہر، پرنسپل اورئینٹل کالج ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری، چئیر پرسن شعبہ پنجابی ڈاکٹر نبیلہ رحمن، ڈاکٹر ضیا الحسن اردو ڈیپارٹمنٹ سمیت 11  اساتذہ کے دستخط موجود ہیں۔

پسِ پس نوشت؛ المیے کی انتہا یہ ہے کہ استاد طالب علوں کی شکایت اور ان کا محاسبہ کرنے کے لیے تحریری درخواستیں دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ کیا اس مافیا کو لگام دینے کا وقت اب بھی نہیں آیا؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain