پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی غنڈہ گردی بند کی جائے


آج ایک نہایت افسوس ناک اطلاع ملی ہے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ ملک کی سب سے زیادہ مایہ ناز یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی کو سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ ادھر کا شرم و حیا سے بھرپور ماحول ہے۔ ادھر افکار مودودی سے لیس طلبہ کا ایک ٹڈی دل دوسرے طلبہ اور اساتذہ کی مدد کرنے کو منڈلاتا رہتا ہے۔ اسے اسلامی جمعیت طلبہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

یونیورسٹی کے تمام انتظامی معاملات انہیں نیک دل طلبہ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں۔ یونیورسٹی میں داخلوں کا سیزن ہو تو یہ جوشیلے نوجوان ارد گرد سے گزرنے والے ہر شخص کو یونیورسٹی میں داخل کر دیتے ہیں خواہ وہ ادھر صرف ڈاک پہنچانے ہی گیا ہو۔ لائیبریری کے گرد یہ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور جیسے ہی کوئی شخص ان کی رینج میں آئے اسے لائبریری کا ممبر بنا کر درجن بھر کتابیں اس پر لاد دیتے ہیں۔

لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ طلبہ و طالبات کے اخلاق کے خدائی فوجدار ہیں۔ کسی کو موسیقی سے دلچسپی ہو تو یہ اس کا طبلہ توڑ دیتے ہیں، کوئی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے بات بھی کر لیں تو یہ ان کو مار پیٹ دیتے ہیں، کسی کو ڈرامے سے دلچسپی ہو تو یہ اسے اپنے تربیتی سیشن میں لے جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔

غرض یہ کہ پنجاب یونیورسٹی میں جو معمولی سی شرم و حیا دکھائی دے رہی ہے، وہ جمعیت ہی کے دم سے ہے۔ کاش جماعت اسلامی اور جمعیت کے سابقون اپنے نجی تعلیمی اداروں میں بھی جمعیت کو کام کرنے کی اجازت دیں تاکہ ادھر بھی کچھ شرم حیا آ سکے اور گناہ و معصیت کا ماحول ختم ہو پائے۔

لیکن آج خبر آئی ہے کہ اورینٹل کالج کے ایک استاد ڈاکٹر اصغر اقبال نے الزام لگا دیا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے دس پندرہ برگزیدہ فرشتہ سیرت اراکین باقاعدہ پلاننگ کر کے ہاتھوں میں ڈنڈے اور اسلحہ لئے ان کے دفتر میں آئے، آتے ہی ان سے دست و گریباں ہو گئے، ہاتھا پائی کرنے لگے اور دھمکیاں دینے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اسامہ اعجاز، علاقہ ناظم انیب افضل اور ہاسٹل نمبر پندرہ کے ناظم عرفان کا نام تک وائس چانسلر کے نام درخواست میں بطور مجرم لکھا دیا۔ بلکہ یہ بھی لکھ دیا کہ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی لاش کو کشمیر بھیجنے اور ان کے اہل خانہ اور بچوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی بھی دی۔

ہماری رائے تو یہ ہے کہ کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ایک جماعتی بھائی نے ہمیں بتایا ہے کہ جمعیت والے تو اساتذہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ان کو تحفے تحائف دیتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جمعیت کے ناظم کی سرکردگی میں جمعیت کے نہایت ہی ممنون طلبہ کا گروہ ڈاکٹر صاحب کو تحفے دینے ہی گیا ہو۔ ان کو چھٹیوں پر کشمیر بھیجنے کا کہا ہو گا، وہ کسی وجہ سے لاش کو کشمیر بھیجنا سمجھ بیٹھے۔ ایسے ہی وہ شاید کچھ نیند میں تھے جو پرامن طلبہ کے ہاتھوں میں پکڑی مسواکوں کو ڈنڈے سمجھ کر خوفزدہ ہو گئے۔ اسلحہ بھی کیا ہونا ہے، کسی طالب علم نے اپنی موٹرسائیکل کا پستول کی شکل کا ”کی رنگ“ پکڑا ہو گا، اسے ڈاکٹر صاحب باقاعدہ اصلی پستول سمجھ بیٹھے۔ جہاں تک دست و گریباں ہونے کی بات ہے تو وہ طلبہ تو اپنے محبوب استاد سے اظہار محبت کے لئے گلے مل رہے ہوں گے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس مبینہ غنڈہ گردی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ بطور سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل انہوں نے اوپر سے ملے احکامات کے تحت اسلامی جمعیت طلبہ کے غیر قانونی طور پر لگائے گئے پوسٹرز اتارے تھے اور اب جمعیت کے اراکین ان کو اپنے خرچے پر پوسٹر دوبارہ لگانے کا حکم دے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ جمعیت کے اراکین کئی مرتبہ ان کے گھر پر بھی حملہ کر چکے ہیں۔

ہماری رائے میں تو اپنے خرچے پر پوسٹر لگانے کی درخواست بالکل درست ہے۔ بطور ہوسٹل وارڈن ظاہر ہے کہ وہ ہی ہوسٹل کے در و دیوار پر تعلیمی پوسٹر لگانے کے ذمے دار ہیں۔ پرامن طلبہ کے لئے جمعیت کے مقتولین کی تصاویر سے بڑھ کر اور کیا سبق آموز ہو گا؟

جہاں تک مکالمے کے دوران معمولی سی اونچ نیچ ہونے کا تعلق ہے تو ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نوجوان اقبال کے شاہین ہیں اور حضرت اقبال کے اس فرمودے پر عمل کرتے ہیں کہ ”خرد کو غلامی سے آزاد کر! جوانوں کو پیروں کا استاد کر!“ ۔ اب پیر شکایت تو کریں گے جب جوان ان کو استاد ماننے کی بجائے خود ڈنڈے اٹھا کر استادی کریں گے۔

ہم ڈاکٹر اصغر اقبال کے الزامات پر ہی شدید صدمے میں تھے کہ کوئی شخص اسلامی جمعیت طلبہ کے نہایت نیک اور با ادب طلبہ پر کیسے ایسا الزام لگا سکتا ہے کہ یہ دیکھ کر گویا سکتے میں آ گئے کہ ان کی حمایت اورینٹل کالج کے گیارہ اساتذہ کے ایک گینگ نے کر دی ہے جن میں پرنسپل اور ڈین بھی شامل ہیں۔

شعبہ تعلیم کا یہ زوال نہایت افسوسناک ہے۔ جمعیت کے سابقہ و حالیہ اراکین سے بات کرنے کے بعد ہم یہ شبہ تو کر ہی نہیں سکتے کہ جمعیت کے تربیت یافتہ اراکین اساتذہ سے بدتمیزی کر سکتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اسامہ اعجاز نے بتایا ہے کہ ”ہمارا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے“۔

اس لئے ہم تو یہی سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ضرور پنجاب یونیورسٹی کے یہ تمام استاد جھوٹے ہیں۔ ہم وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے تمام اساتذہ کو ملازمت سے نکال دیا جائے تاکہ الزام تراشی اور غنڈہ گردی کا سلسلہ بند ہو اور پنجاب یونیورسٹی کو باقاعدہ سرکاری نوٹیفیکیشن کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے کر دیا جائے۔ (ختم شد)


اسی بارے میں: جمعیت کے خلاف اساتذہ کی غنڈہ گردی کے چند واقعات

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar