خادم رضوی دھرنا، فیض آباد سازش اور مجبور حکومت
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دباؤ اور مظاہرین کے بے بنیاد احتجاج کے باوجود حکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے انٹرچینج پر جاری دھرنے کو ختم کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اگرچہ وزیر داخلہ احسن اقبال متعدد بار متنبہ کر چکے ہیں کہ حکومت کو کمزور نہ سمجھا جائے لیکن وہ اس مسئلہ کا سیاسی اور پرامن حل تلاش کرنا چاہتی ہے۔ آج اسلام آباد ہائی کورٹ حکومت کو دھرنا ختم کروانے کے لئے مزید تین روز کی مہلت دینے پر آمادہ ہو گئی لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے واضح کیا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد میں ناکامی کی صورت میں متعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا حکومت اور اداروں کے باہمی تنازعہ کے باعث بعض عناصر حکومت کا حکم ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے عدالت کو یقین دلایا کہ ایسی صورتحال نہیں ہے اور حکومت دھرنا ختم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن بعض شرپسند عناصر اس موقع پر خوں ریزی چاہتے ہیں تا کہ لال مسجد یا ماڈل ٹاؤن جیسا المیہ سامنے آ سکے۔ احسن اقبال کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ دھرنا دراصل 2018 کی انتخابی مہم کا نقطہ آغاز ہے۔ گویا انہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حکومت کو مسلح تصادم میں پھنسا کر اس کی سیاسی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دو ہفتے سے جاری دھرنا کئی لحاظ سے ناجائز اور ناقابل قبول ہے۔ اول تو اس دھرنا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ختم نبوت کے جس حلف نامہ کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا جا رہا ہے، وہ متعلقہ انتخابی قانون میں شامل کر دیا گیا ہے بلکہ تازہ ترین ترمیم کے تحت اسے مزید مستحکم کیا گیا ہے۔ دوسرے دھرنے کی وجہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان دو ہفتہ سے ٹریفک متاثر ہے۔ عوام کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس احتجاج کی وجہ سے بروقت طبی امداد نہ ملنے اور اسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے کئی اموات بھی واقع ہو چکی ہے۔ تیسرے مظاہرین ایک ایسا مطالبہ کر رہے ہیں جسے مان کر حکومت اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھے گی۔ اگرچہ یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ حکومت نے مظاہرین کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران وزیر قانون زاہد حامد کو طویل رخصت پر بھیجنے یا ان کا محکمہ تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی ہے لیکن مظاہرین نے اسے مسترد کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ زاہد حامد کو کابینہ سے نکالا جائے۔ دباؤ میں آئی ہوئی حکومت اگر اس مطالبہ کو ماننے پر مجبور ہو گئی تو نہ صرف حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی بلکہ ملک میں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کے حوصلے بھی بلند ہوں گے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہب کو سیاسی معاملات میں اس قدر دخیل کر دیا گیا ہے کہ اس رویہ نے معاشرہ میں شدت پسندی اور خوں ریزی کو عام کیا ہے۔ اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ مظاہرین کی قیادت کرنے والے لوگ اگرچہ خود کو عالم اور مشائخ کہلواتے ہیں لیکن انہوں نے غلیظ زبان استعمال کرنے اور مذہبی معاملات پر پھکڑ بازی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مولوی خادم حسین رضوی کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف توہین آمیز گفتگو کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے ان سے یہ الفاظ واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی حکومتی ارکان کو تو توہین عدالت کی دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن خادم رضوی کی گرفتاری کا حکم جاری نہیں کر سکے۔ وہ ایسا کرتے تو بھی وزیر داخلہ سمیت پوری حکومت اس حکم پر عمل کرنے سے گریز کرنے کی کوشش کرتی۔
ڈیڑھ دو ہزار افراد کے مظاہرے اور حکومت کی بے بسی کو دیکھتے ہوئے یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ فوج اس صورت حال میں کیا موقف رکھتی ہے۔ تحریک لبیک کے نام سے بنائی گئی سیاسی پارٹی اگرچہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی پر احتجاج کے نتیجہ میں قائم ہوئی تھی لیکن اس نے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے خلاف انتخابی مہم چلا کر ان شبہات کو جنم دیا ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ مذہبی جماعتوں کو سابق وزیراعظم کی پارٹی کو انتخابی شکست سے دوچار کرنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ فوجی ادارے ماضی میں یہ ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔ روایتی طور پر ہر طرح کے مذہبی گروہ اگرچہ حکومت وقت کے خلاف پرجوش نعرے بلند کرتے ہیں لیکن وہ فوج کی حمایت میں یک زبان ہوتے ہیں۔ سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں متعدد مذہبی گروہوں کو فوج کی حمایت میں مظاہرے کرنے اور جلوس نکالنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا تھا۔ فوج ایسے بعض مذہبی گروہوں کی سرپرستی بھی کرتی ہے جو عالمی دہشت گرد قرار دیئے جا چکے ہیں۔ ان میں لشکر طیبہ اور جیش محمد خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں امریکہ کے ساتھ تنازعہ کی بنیادی وجہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستانی عسکری اداروں کے تعلقات ہیں۔ اس الزام سے انکار کرنے کے باوجود پاکستان، امریکہ یا افغان حکومت کو اس بات پر قائل نہیں کر سکا ہے کہ حقانی نیٹ ورک یا ایسے ہی دیگر گروہوں کے ساتھ پاکستانی فوج کے مراسم نہیں ہیں۔
اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے مذہبی گروہوں کا تعلق زیادہ تر بریلوی مسلک سے ہے۔ جبکہ فوج اس سے قبل دیو بندی یا سلفی عقائد رکھنے والے گروہوں کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ البتہ موجودہ دھرنے کے سیاسی مضمرات پر غور کرتے ہوئے یہ سوال اب شدت سے سامنے آ رہا ہے کہ کیا فوج مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ حتمی ’’جنگ‘‘ میں ان گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ایسے معاملات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکتا لیکن پاکستان کی تاریخ میں ایسے سانحات رونما ہوتے رہے ہیں۔ 2014 میں تحریک انصاف اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کے دوران پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کی کوشش فوج کی مداخلت پر ہی ناکام ہوئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر طاہر القادری اور تاحیات دھرنے پر رہنے کے دعوے دار عمران خان نے بھی اسے فوج کی ہدایت پر ہی احتجاج ختم کیا تھا۔ اسی لئے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انہیں بھی فوجی اداروں کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ اگر ایسا ہے تو فوج آخر اس حکمت عملی سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ دھرنا کو تصادم میں تبدیل کر کے مسلم لیگ (ن) کو شدید مجروح کر دیا جائے اور اس کی انتخابی کامیابی کے امکانات مزید محدود ہو جائیں لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں جو مذہبی شدت پسندی جڑیں پکڑے گی، اس سے نمٹنے کے لئے بھی فوج کو ہی اپنی صلاحیتیں صرف کرنا پڑیں گی۔ مسلح افواج گزشتہ چار برس سے قبائلی علاقوں میں جن عناصر کے خلاف برسر جنگ ہیں، وہ کسی زمانے میں فوج کے حلیف تھے اور اسی کے مقاصد کے لئے سرگرم تھے۔ کیا فوج اور پاکستان ایک بار پھر کسی دوسری میں مختلف العقیدہ مذہبی گروہ کے ذریعے ویسا ہی تجربہ کرتے ہوئے مختلف نتائج حاصل کر سکیں گے۔
فوج پر انگلیاں اٹھنے کے باوجود اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ فیض آباد میں جاری اشتعال انگیزی فوج ہی کے کسی منصوبہ کا حصہ ہے۔ تاہم جس طرح قیاس آرائیاں کرنے والوں کی زبانیں نہیں پکڑی جا سکتیں، اسی طرح حکومت اور حکمران پارٹی کے اس خوف کو بھی دور نہیں کیا جا سکتا جو ایسے ہی کسی امکان کی وجہ سے اس پر حاوی ہے۔ اس کا کسی حد تک اظہار وزیر داخلہ کی باتوں سے ہو بھی رہا ہے اور حکومت کی طرف سے عملی اقدامات سے گریز بھی دراصل دھرنے میں نعرے لگانے والے ڈیڑھ دو ہزار لوگوں کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ سیاست میں عسکری اداروں کی مداخلت کے مختلف النوع ہتھکنڈوں کا ڈر ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر وہ دھرنے والوں سے تصادم میں ملوث ہو گئی تو اس صورتحال کو سیاسی طور پر اس کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ گو کہ فوج کا شہری بدامنی کے معاملات میں براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن موجودہ دھرنا کے بارے میں فوج کی مسلسل اور مکمل خاموشی کیا محض اس پالیسی کا حصہ ہے یا درحقیقت اس کی کوئی دوسری وجوہات ہیں۔
حکومتی معاملات میں فوج کا اثر و رسوخ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ اس لئے اس دھرنا کے حوالے سے بھی اگر فوج کوئی دو ٹوک بیان دیتی تو بہت سے شبہات کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں حقیقی مسائل پر بات کرنے اور توجہ دینے کی بجائے غیر ضروری معاملات پر ساری صلاحیتیں صرف کرنے کی روایت فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بھی جاری ہے۔ حیرت ہے کہ ایک کے بعد دوسرا تماشہ لگانے اور اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دینے والے سیاسی ، مذہبی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے عناصر یہ احساس کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ اس عمل سے پاکستان اور پاکستانی عوام کی بربادی کا سامان میسر ہوتا ہے۔
احسن اقبال کی یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ دھرنا حکومت کو نئے تصادم میں ملوث کرنے کی سازش ہے یا یہ دراصل 2018 کے انتخابات کی تیاری ہے لیکن بطور سیاستدان اور وزیر داخلہ انہیں یہ جواب بھی دینا ہوگا کہ چند سو مظاہرین سے لرزہ براندام حکومت ملک کے عوام کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).