مجھے چھپنے دیجیے


\"inam-rana\"ایک بہت پیارے دوست نے اپنی ایک پوسٹ میں \”ہم سب\” پر اعتراض کیا ہے کہ یہ ہر ہما شما کی ہر طرح کی تحریر اٹھا چھاپتا ہے اور معیار مدنظر نہیں رکھتا۔ ویور شپ کے چکر میں ہر قسم کی شے چھاپ دیتا ہے۔ جبکہ انکشاف، چٹکی اور آئی بی سی اردو وغیرہ خصوصا انکشاف معیار کا خصوصی خیال رکھتے ہیں اور ہر کسی کی تحریر نہیں چھاپتے۔ ان کا مزید خیال تھا کہ \”ہم سب\” کے معیار کیلیے فرنود عالم، عاصم بخشی، عدنان کاکڑ، ید بیضا اور حسنین جمال کافی ہیں۔

خیر یہ ان کا نقطہ نظر ہے جس سے اختلاف اور اتفاق دونوں ممکن ہیں۔ گو ہر سائیٹ پر ایسا کچھ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔ خصوصا ایک سائیٹ پر تو تحریر کا چھپنا شاید مدیر محترم کی رائٹر کیلیے ذاتی پسند و ناپسند پر یا پھر اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی انا کے کس موڈ میں ہیں۔ لیکن میں ان سے احترام اور محبت کے رشتے کے باوجود اپنا موقف ضرور دینا چاہوں گا۔ یہ مدنظر رہنا چاہیے کہ یہ بلاگنگ سائیٹس کا رجحان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک مکالمہ کا تصور موجود ہی نہ تھا۔ سیاسی اور مذہبی اختلاف میں ایک دوسرے کی پوسٹ پر جا کر پگڑی اچھالنا رواج تھا۔ گالی اور کردار کشی ایک روایت تھی۔ ایسے میں ان سائیٹس نے اپنی بات کہنے کا ایک سنجیدہ موقع فراہم کیا۔ فیس بک پر بہت سے لوگ جو فقط تصویریں اپلوڈ کرنے، سیلفیاں کھینچنے یا مخالف نقطہ نظر پر چڑھ دوڑنے میں مصروف تھے، اب سنجیدہ مکالمے کی طرف توجہ دینا شروع ہوے ہیں۔ ایسے میں ان سائٹس کا لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس سنجیدہ مکالمہ آرائی کی طرف متوجہ ہوں۔ یقین کیجیے فرنود ہوں یا حسنین، عاصم بخشی ہوں یا عدنان، یہ سب بھی کسی نہ کسی وجاہت مسعود کی حوصلہ افزائی سے ہی پروان چڑھے ہیں۔

میں اپنی مثال دیتا ہوں۔ اب تک میں \”ہم سب\” پر ایک ماہ میں قریب چودہ تحریریں لکھ چکا ہوں جو کل ملا کر تقریباً اکاون ہزار بار پڑھیں گئیں۔ میری تحریر کی رفتار پر حضرت غیور علی خان فرماتے ہیں کہ تم تحریر کے متھن چکروتی ہو جس کی ہر اتوار نئی فلم آتی تھی۔ کچھ دوستوں کی مہربانی کہ  انھیں میری تحریر پسند بھی آتی ہے۔ مگر میرا یوں مستقل اور مسلسل لکھنا \”ہم سب\” کی اس حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے۔ مجھے بچپن سے لکھنے کا شوق تھا۔ میں اوٹ پٹانگ سا تو کب کا لکھتا تھا۔ بہت سال قبل کی بات ہے، میں سترہ برس کی عمر میں خبریں اخبار میں بہت محنت سے ایک کالم لکھ کر لے گیا جو میرے مڑتے ہی بغیر پڑھے ریسپشن پر بیٹھے بھائی نے بن کر دیا۔ میں نے کئی سال دوبارہ کوئی چیز چھپنے کے لیے نہ لکھ سکا۔ فیس بک پر معروف دانشور عاصم اللہ بخش نے مجھے اردو لکھنے کا شوق ڈالا۔ میں نے کئی ایسی چیزیں لکھیں جنھیں پنگا لینا ہی کہا جا سکتا ہے اور کفر کے فتوے لگوائے۔ مگر سنجیدہ لکھنے کی طرف مجھے یار من علی سجاد شاہ لایا۔ پھر سبوخ سید نے ہمیشہ اکسایا۔ اور ایک دن جیسے عدنان کاکڑ بھائی اور پھر وجاہت صاحب نے حوصلہ افزائی کی، اس نے مجھے باقاعدہ لکھنے کی طرف مائل کیا۔ میں خود کو کوئی کالم نویس یا دانشور نہیں سمجھتا مگر میرے جذبات اگر میری تحریر کے زریعے \”چینل\” ہو جاتے ہیں تو اس کیلیے میں \”ہم سب\” کا شکر گزار ہوں۔ وجاہت مسعود ایک بڑا نام ہیں، صحافت کا بھی اور نظریاتی جدوجہد کا بھی۔ انھوں نے مکالمے کو رواج دینے کی ایک نئی لہر اٹھائی ہے۔ اور اسی تحریک میں وہ مجھ جیسی کئی بھٹکی بھیڑوں کو گلّے میں واپس لا رہے ہیں۔ جب پارس اڑ اڑ کر پتھروں پر گرے تو وہ بھی کچا پکا ہی سہی سونا بن ہی جاتے ہیں۔ سو کون جانے کل کون کون آنے والے دور کا فرنود عالم اور مجاہد علی یا عاصم بخشی بلکہ عامر خاکوانی بن جائے۔

اس ابتدائی دور میں مجھ ایسے بہت سے نو آموز بھی چپھیں گے تاکہ حوصلہ افزائی ہو اور پھر ایڈیٹر شپ اور ویورشب بتدریج تطہیر کرتی جائے گی۔ شاید ایک آدھ سال میں یہ سب سائیٹس ان معیار پر ہوں گی کہ بہت سے اچھے نام سامنے آ جائیں گے اور مجھ جیسے ان سائیٹس پر چھپنا ایک خواب سمجھیں گے۔ تب تک ہم جیسوں کو چھپنے دیجیے اور زرا برداشت کر لیجیے، آخر آپ نے سوقیانہ اشعار اور قاتلانہ سلفیاں بھی تو اتنا عرصہ برداشت کی ہیں۔

انعام رانا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

انعام رانا

انعام رانا لندن میں مقیم ایک ایسے وکیل ہیں جن پر یک دم یہ انکشاف ہوا کہ وہ لکھنا بھی جانتے ہیں۔ ان کی تحاریر زیادہ تر پادری کے سامنے اعترافات ہیں جنہیں کرنے کے بعد انعام رانا جنت کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ فیس بک پر ان سے رابطہ کے لئے: https://www.facebook.com/Inamranawriter/

inam-rana has 36 posts and counting.See all posts by inam-rana

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments