الطاف حسن قریشی نے یحیی خان کے مارشل لا کا استقبال کیسے کیا؟


محترم الطاف حسن قریشی ایک جید صحافی اور ادیب ہیں۔ ان کی صحافتی خدمات کا سفر 60 برس پر محیط ہے۔ ان ساٹھ برس کے دوران الطاف حسن قریشی نے اپنے قلم سے ہر اہم موڑ پر قوم کی رہنمائی کی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مارچ 1969ء میں جنرل ایوب خان نے اپنا ہی بنایا ہوا آئین توڑ کر فوج کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان مقرر کیا تو نامور صحافی الطاف حسن قریشی نے قوم کو کن الفاظ میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان پر اعتماد کرنے کی ترغیب دی۔ جناب الطاف حسن قریشی نے جنرل یحیٰی خان کو جنرل ایوب سے مختلف اور حقیقت حال کا گہرا شعور رکھنے والے انسان قرار دیا۔  “اردو ڈائجسٹ” کے شمارہ بابت مئی 69 میں الطاف حسن قریشی کا کلیدی مضمون “آئین بہاراں کیا ہو گا” کے عنوان سے شائع ہوا۔ آئیے اس تاریخی تحریر کا مطالعہ کرتے ہیں

٭٭٭    ٭٭٭٭

“یہ کامل اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ 69 کا مارشل لا ملک پر فوجی حکومت مسلط کرنے نہیں آیا۔ جناب جنرل یحیی پوری قوم اور ساری دنیا کے سامنے یہ عہد بار بار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں جلد سے جلد آئینی حکومت قائم کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک اچھے جنرل کو اپنے الفاظ کا بڑا پاس ہوتا ہے، وہ جان دے دیتا ہے مگر اپنے الفاظ کی صحت اور عصمت پر آنچ نہیں آنے دیتا۔

ماضی کے تجربات بڑے تلخ تھے، اس لیے مارشل لا کے نفاذ سے ذہنوں میں ان گنت سوالات کا ابھرنا بالکل فطری تھا۔ جناب جنرل یحیی کی ذہانت اور جرات کی داد دیجیے کہ انہوں نے خود آگے بڑھ کر پیدا ہونے والے تمام شبہات اپنی پہلی ہی نشری تقریر میں ایک ایک کر کے صاف کر دئیے۔ 69 کا مارشل لا اپنے مزاج، فلسفے اور نتائج کے اعتبار سے 58 کے مارشل لا سے قطعی مختلف ہے۔ جنرل ایوب خان نے عوام سے چھینے ہوئے حقوق پر اپنی شخصیت کا پرشکوہ محل تعمیر کرنا چاہا لیکن جنرل یحیی خاں انتہائی حالات میں، عوام سے لیے بنیادی حقوق عوام کو لوٹانے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں۔ پھر انہیں مسیحا ہونے کا دعوی بھی نہیں۔ وہ ملک کے مسائل اہل ملک کے مشورے اور ان کی مشترکہ کوششوں سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنا امیج بنانے کا بھی شوق نہیں۔ وہ تو صرف پاکستان کی سالمیت کا امیج سنوارنا اور نکھارنا چاہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کا گہرا شعور رکھتے ہیں کہ حالات نے مارشل لا کو ناگزیر بنا دیا تھا۔ مارشل لا اہل پاکستان کی منزل نہیں، بلکہ ان کی اصل منزل جمہوریت اور خالص جمہوریت ہے۔ وہ جمہوریت جو قران اور سنت کی حدود میں رہنا جانتی ہو۔”

آگے چل کر الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں۔

“69 کے مارشل لا کا سب سے تابناک پہلو یہی ہے کہ وہ ملک میں پاکستان کی سالمیت سے ہم آہنگ جمہوریت نافذ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے بارہ کروڑ عوام جمہوریت کے لیے چشم براہ ہیں۔ وہ بائیس سال سے جمہوریت کی اصل شکل دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں۔ ان کی دیوانگی اور وارفتگی ٹھٹر کے اور تند و تیز ہو گئی ہے۔ جناب جنرل یحیی قوم کے ان احساسات سے پوری طرح آگاہ ہیں اور انہوں نے تاریخی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، وہ قوم کو پہلی بار آزاد اور منصفانہ انتخابات کی لذت سے آشنا کریں گے۔ یعنی پاکستانی عوام کو اپنی حاکمیت کے استعمال کا پہلی بار موقع دیں گے۔ یہ عظیم الشان کام سر ہو گیا تو حقیقی عظمت کا تاج جنرل یحیی کے سر پر ہو گا۔

جناب جنرل یحیی کی شدت احساس کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مارشل لا کے نفاذ کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ وہ آئینی مسائل سلجھانے کے لیے سیاسی قائدین سے ملنے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔”

اسی شمارے میں جنرل یحیی خان کی پہلی پریس کانفرنس کے بارے میں تاثرات بیان کرتے ہوئے الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں۔

“اس وقت جب گھڑیال نے دس بجائے جنرل یحیی خاں اپنے رفیقوں کی معیت میں اندر داخل ہوئے، وہ جنرل کی خاکی وردی میں تھے۔ ان پر فوٹو گرافروں اور ٹیلی ویژن کیمرہ مین کی بٹالین حملہ آور ہوئی۔ جنرل یحیی کی حالت قابل دید تھی۔ وہ محو حیرت بنے کھڑے تھے۔ ان کے منہ سے نکلا؛

“یہ کیا تماشا ہے؟”

“فلیش لائٹیں ان کے چہرے کو بار بار چومتی رہیں۔”

“یہ اپنی نوعیت کی پہلی پریس کانفرنس تھی کہ مارشل لا کے افتتاحی دور میں ہونے کے باوجود مکمل طور پر آزاد فضا میں منعقد ہوئی۔ ہر شخص کو سوال پوچھنے کی آزادی تھی۔ جنرل یحیی کا رویہ اس قدر خوش گوار تھا کہ سوال پوچھنے کی ہمت بندھتی تھی۔”

“یہ بھی اچھی روایت قائم ہوئی کہ نئے صدر مملکت نے اپنے امیج کو ابھارنے سے گریز کیا۔ اقتدار ہاتھ میں ہو تو شخصیت کی امنگ پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ جنرل یحیی خاں نے اس امنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔”

“پھر ان کے لب و لہجے میں ذرا بھی تحکم نہ تھا۔ انکسار اور اعتدال۔ انہوں نے اپنے افکار ٹھونسنے سے زیادہ صحافیوں کے افکار سے باخبر ہونے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی شخصیت کو اہل صحافت کی شخصیتوں میں ملا دیا۔ ایک موقع پر بھی انہوں نے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اپنی شخصیت کے بت کی پوجا کرانا چاہتے ہیں۔”

“یہ پریس کانفرنس جذبات سے عاری اور حقیقت سے پر تھی۔ جنرل یحیی نے تمام اہم اور نازک مسائل کا ذکر کیا۔ مگر جذباتی انداز میں نہیں، حقیقت پسندانہ لہجے میں۔ انہوں نے ایک ڈپلومیٹ کی حیثیت سے تلخ حقیقتوں کو خوش نما الفاظ میں چھپانے کی کوشش نہیں کی، ایک دیانت دار ڈاکٹر کی طرح تمام امراض گنوا دئیے اور یہ بھی کہہ دیا کہ صحت یابی میں وقت لگے گا۔ جھوٹی توقعات کے لیے ذرا بھی گنجائش نہیں چھوڑی۔”

“اس پریس کانفرنس میں قومی عظمت اور اجتماعی شعور کی بالا دستی قائم ہوئی۔ 8 اکتوبر 1958 کی پریس کانفرنس میں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ قوم میں فہم و شعور کا فقدان ہے اور ایوب خاں قوم کے لیے مسیحا بن کے آئے ہیں۔ 10 اپریل 1969 کی پریس کانفرنس اس نظرئیے کی نفی کرتی تھی۔”

“اس پریس کانفرنس نے قومی وقار اور قومی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیا کے سامنے پاکستانی قوم کو رسوا کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).