سر، مجھے لڑکے کمینے لگتے ہیں


میڈم! مجھے لڑکے پسند ہیں” کے عنوان سے محترمہ فرح احمد صاحبہ کا ایک کالم “ہم سب” پر نظر سے گزرا۔ اس کالم میں میڈیم فرح احمد نے اپنی ایک اسٹوڈنٹ لڑکی کا کیس ڈسکس کیا ہے کہ جسے لڑکے اچھے لگتے تھے، وہ ان کے ساتھ دوستی کرنا چاہتی تھی، اسے آزادی چاہیے تھی لیکن معاشرتی اور خاندانی روایات اس کی اس خواہش میں آڑے آتی تھیں کہ لڑکی کو ڈر تھا کہ اگر اس کے ابا کو پتہ چل گیا تو اسے جان سے مار دیں گے۔ میڈم فرح احمد نے اس مسئلے کی وجہ “جنریشن گیپ” کو قرار دیا ہے۔

ہمیں محترمہ فرح احمد صاحبہ کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ صورت واقعہ ایسی ہی ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور وہ جو کہ چھوٹے شہروں یا دیہات سے بڑے شہر میں آتی ہیں، کی ایسی ہی خواہشات ہیں۔ ایسے میں خواہ مخواہ کی ضد میں یہ کہنا کہ واقعتا میں ایسا تو نہیں ہو رہا اور محترمہ کسی خیالی یا تصوارتی لڑکی کی بات کر رہی ہیں، درست نہیں ہو گا۔ پس ہمیں اس مسئلے کا وجود ہونے میں تو میڈم سے اتفاق ہے لیکن اس کے اس تجزیے سے اتفاق نہیں ہے جو محترمہ فرح احمد نے کیا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک لڑکی کی بات ہے، ہر لڑکی کی نہیں ہے۔ میں خود ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ میرے پاس ایک ماڈ سکاڈ لڑکی کاؤنسلنگ کے لیے آئی اور اس کا جملہ یہ تھا کہ “مجھے لڑکے کمینے اور زہر لگتے ہیں، میں انہیں دیکھنا بھی نہیں چاہتی”۔ تو یہ ہر ایک کا ذاتی تجربہ ہے جو مختلف ہو سکتا ہے۔ اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ جو لڑکی کئی لڑکوں کے ساتھ جنسی تجربہ کر چکی ہو تو اس کا جملہ یہ ہر گز نہیں ہو گا کہ “مجھے لڑکے اچھے لگتے ہیں” بلکہ اس کا جملہ یہی ہو گا کہ “مجھے لڑکے کمینے لگتے ہیں”۔

چلیں، اس بات کو دوسری طرح سمجھ لیں کہ اس لڑکی کی جب شادی ہو جائے گی، چاہے لو میرج ہی کیوں نہ ہو تو اسے اپنا خاوند کمینہ معلوم ہو گا۔ دوسرا اس بات کو سمجھںے کی ضرورت ہے کہ لڑکیوں کو لڑکے کیوں اچھے لگتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو جنس مخالف سے رغبت اور کشش ہے اور یہ فطری ہے۔ لیکن زیادہ بڑی وجہ یہ ہے کہ عورت کو توجہ چاہیے، توجہ چاہیے، اس کی خواہش ہے کہ کوئی اس کو چاہے، اس کی تعریفیں کریں، چاہے جھوٹی ہی کیوں نہ ہوں، یہ عورت کی آزمائش ہے۔ اس کے برعکس مرد میں سیکس کی جبلت قوی ہے لہذا اس کی آزمائش اس میں ہے۔

ایک لڑکی جب فیملی لائف سے ہاسٹل میں آتی ہے تو اس کی ہوم سکنیس بڑھ جاتی ہے۔ اور تنہائی ایک عذاب ہے لہذا اس ڈیپریشن میں اس کی توجہ حاصل کرنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور مخلوط تعلیم میں اس خواہش کے پورا ہونے کے آسان مواقع میسر ہوتے ہیں لہذا وہ ایک نہیں کئی ایک لڑکوں سے اٹیچمنٹ محسوس کرتی ہے۔ لڑکے بظاہر شروع میں اس کی تعریفیں کرتے ہیں، اسے توجہ دیتے ہیں لیکن لڑکوں کا یہ مزاج نہیں ہے لہذا وہ اپنی سیکس کی جبلت پوری ہونے کے بعد اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ مردوں کو دیکھ لیں کہ وہ شادی کے بعد اپنی محبوبہ کی کتنی تعریفیں کر پاتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ عورت کی اگر یہ ضرورت پوری نہ ہو یعنی چاہے جانے کی تو شادی کے بعد بھی اسے لڑکوں میں رغبت محسوس ہو گی۔ اب یہ عقلمندی تو شوہر صاحب کو کرنی ہے ناں۔

ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیے جانے کے بعد اب وہ ڈرگ ایڈکشن میں پناہ لیتی ہے یا کسی اور لڑکے کی گود میں سر رکھ کر اپنی پرانی اذیت کو بھلانا چاہتی ہے لیکن کب تک؟ اس کا انجام یا تو خود کشی ہے، ڈگری وگری تو ویسے ہی کام سے گئی کہ ایسی حرکتوں اور خواہشات کے پورا کرنے میں لگ جانے سے اس کا سی۔ جی۔ پی۔ اے دو بھی آ جائے تو بہت غنیمت ہے۔ اس ناکامی کا ڈیپریشن علیحدہ سے سر پر سوار ہوتا ہے جو سکون آور ادویات اور ڈرگ ایڈکشن کی طرف لے جاتا ہے۔ اب اسے لڑکے کمینے لگتے ہیں بلکہ اسے تو اپنے استاد کی نظریں بھی ایسی معلوم ہوتی ہیں کہ جیسے استاد صاحب کو اس کی تعلیم سے زیادہ اس کے جسم سے لگاؤ ہو۔ بھئی، یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ایسے ہی ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کے اسکولوں میں 47 فی صد بچے ڈرگ ایڈکشن میں مبتلا ہیں۔ یہ باتیں ایسے ہی تو سینیٹ میں ڈسکس نہیں ہو رہیں۔ بہت خطرناک صورت حال ہے اور کسی کو احساس تک نہیں ہے۔

اگر اس کا صحیح معنوں میں حل چاہتے ہیں تو وہ ایک ہے۔ خدارا! اس مسئلے کو سمجھیں، اسے ہلکا نہ جانیں۔ کالج لائف اور یونیورسٹی گریجویشن کے دوران لڑکی اپنی زندگی کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہی ہوتی ہے، اسے توجہ چاہیے، عورت کی نہیں، مرد کی۔ اور یہ توجہ اسے اس کی ماں نہیں، باپ دے سکتا ہے۔ باپ کی توجہ اور وقت دینے سے اس میں اعتماد پیدا ہو گا اور اس کی لائف میں ٹھہراؤ پیدا ہو گا۔ لیکن باپ تو سارے پیسے کمانے کی میشن بنے ہوئے ہیں، ان کے پاس اولاد کے لیے وقت کہاں؟ اور اگر وقت ہے بھی تو اولاد سے تعلق میں گیپ اتنا ہے کہ کمیونیکیشن نہ ہونے کے برابر ہے۔

آپ کی بچی کو توجہ چاہیے، اگر آپ اس کے باپ ہوتے ہوئے اسے توجہ اور وقت نہیں دیں گے، اس کی تعریف نہیں کریں گے، تو وہ یہ سب کچھ باہر سے لے گی، اس کے بغیر اس کے لیے زندہ رہنا مشکل ہے، اگر رہے گی تو ایک قید خانے میں محبوس قیدی کی طرح اور یہ پھر اس کا ایمان اور صبر ہے۔ لیکن اتنا ایمان اور صبر کس کے پاس ہے؟ اس سارے مسئلے میں اصل قصور وار باپ ہے، بس۔ کہ جس نے اپنی ذمہ داری صرف اتنی سمجھ لی کہ اولاد پر خرچ کر لیا تو میری ذمہ داری ادا ہو گئی۔ نہیں، اولاد کو آپ سے صرف مال نہیں بلکہ وقت، توجہ اور پیار بھی چاہیے ورنہ تو وہ نامکمل رہے گی اور اپنی شخصیت کی ان ضرورتوں کی تکمیل باہر سے کرے گی۔ آخر کو وہ انسان ہے، اپنی تکمیل تو اسے کرنی ہی ہے ناں۔

تو لڑکے اسے اسی لیے اچھے لگتے ہیں کہ وہ اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن اس کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ لڑکا اس کی تعریف صرف اپنا مقصد نکالنے کے لیے کر رہا ہے اور وہ ہے اپنی سیکس کی خواہش پوری کرنا۔ اور جب وہ پوری ہو گئی تو اب اسے معلوم ہو گا کہ لڑکے اسے کمینے لگتے ہیں۔ لہذا اس کا واحد حل یہی ہے کہ نکاح اور شادی کی جائے کہ جس میں چلیں اس کی تعریف کی خواہش نہ سہی کم از کم گھر بنانے، بچے پیدا کرنے، خاوند سے خرچہ لینے کی کچھ نہ کچھ خواہشات تو پوری ہو جائیں گی۔ اور ویسے خاوندوں سے تعریف وصول کرنا بھی آسان کام ہے، بیوی بن کر تو دیکھیں۔ عاشقوں سے تعریفیں وصول کرنے کے لیے بہت کچھ قربان کرنا پڑتا ہے، عزت سے بڑی چیز کیا ہو سکتی ہے جو اسے دینی پڑ جاتی ہے۔ تو جب تک شادی نہیں ہوتی تو باپ تعریف کرے، یہی مسئلے کا حل ہے ورنہ تباہی ہے۔


اسی بارے میں

”میڈم مجھے لڑکے پسند ہیں“

محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ
Latest posts by محمد زبیر، ساوتھ ایشیا پارٹنرشپ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).