سندھ میں جانوروں کے ’شناختی کارڈز‘ جاری کرنے کی تجویز


گائے

اس قانون کے نفاذ عمل ہونے کے سات روز کے بعد تمام مویشی مالکان مال مویشیوں کی تفصیلات جمع کرائیں گے

پاکستان کے صوبہ سندھ میں صوبائی حکومت نے مال مویشی کی رجسٹریشن کرنے اور انھیں شناختی نمبر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے صوبائی اسمبلی میں سندھ لائیو سٹاک رجسٹریشن اور ٹریڈ اتھارٹی کے قیام کا بل پیش کردیا گیا ہے۔

سینیئرصوبائی وزیر نثار کھوڑو نے بدھ کو جانورں کی نقل و حرکت اور رجسٹریشن کا مجوزہ بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا، جس پر کل بحث کی جائے گی۔

بل میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں بڑے جانوروں گائے، بھینس، اونٹ کے علاوہ بکرے، بکری اور دنبے کو شناختی دستاویز جاری کیے جائیں گے۔ ’ان جانوروں کی بین الاضلعی اور بین الاصوبائی نقل و حرکت کے لیے اتھارٹی کی اجازت لازمی ہوگی، اس کے لیے انھیں اجازت نامہ جاری ہوگا۔

’ہر جانور کا رجسٹریشن دستاویز میں کوڈ نمبر ہوگا، جس میں مالک کا نام، پتہ، جانور کو کہاں رکھا گیا تھا، جہاں منتقل کیا جارہا ہے وہاں کا نام اور کوڈ نمبر اور اگر مذبحہ خانہ منتقل کیا جارہا ہے تو وہاں کا نام اور کوڈ نمبر تحریر ہوگا۔‘

سندھ لائیو سٹاک رجسٹریشن اینڈ ٹریڈ اتھارٹی جانوروں کی پیدائش، اور اموات سے لے کر جانوروں کی ذبیح تک کا ریکارڈ رکھنے کی ذمہ دار ہوگی جبکہ اتھارٹی جانوروں کی خرید و فروخت کا بھی طریقہ کار بنائے گی۔ اس قانون کے مطابق مالکان پر لازمی ہوگا کہ وہ جانوروں کی انوینٹری ریکارڈ رکھیں اور سالانہ اتھارٹی کو جمع کرائیں۔

مجوزہ قانون کے مطابق کسی دوسرے ملک سے لائیو سٹاک درآمد کرنے کی صورت میں اتھارٹی میں رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگی، کوئی بھی جانور رجسٹریشن کے کاغذات کے بغیر نقل و حرکت نہیں کرسکے گا۔ جانور کی ہلاکت یا ذبیح ہونے کی صورت میں رجسٹریشن کارڈ واپس دینا ہوگا۔

جانور

محکمہ شماریات کی جانب سے سنہ 1996 میں جانوروں کی کی گئی شماری کے مطابق سندھ میں 54 لاکھ گائے، 56 لاکھ بھینسیں موجود تھیں

اس قانون کے نفاذ عمل ہونے کے سات روز کے بعد تمام مویشی مالکان مال مویشیوں کی تفصیلات جمع کرائیں گے، یہ اتھارٹی آزاد ہوگی، جس کے سربراہ صوبائی وزیر لائیو سٹاک ہوں گے جبکہ بورڈ سات اراکین پر مشتمل ہوگا۔

پاکستان کے محکمہ شماریات کی جانب سے سنہ 1996 میں جانوروں کی کی گئی شماری کے مطابق سندھ میں 54 لاکھ گائے، 56 لاکھ بھینسیں، 37 لاکھ بھیڑیں، 97 لاکھ بکرے اور بکریاں موجود تھیں، سرکاری تخمینے کے مطابق ان میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔

دوسری جانب کراچی کے ڈیری فارم مالکان کی تنظیم کے رہنما حاجی محمد افضل کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 60 فیصد بھینسیں پنجاب سے لائی جاتی ہیں، اس قانون کی وجہ سے پیچیدگی پیدا ہوگی۔

’ان جانوروں کی خریداری مویشی منڈی سے کی جاتی ہے، جہاں فروخت کرنے اور خرید کرنے والوں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں، اس کے علاوہ کوئی دستاویز دستیاب نہیں ہوگا، اس قسم کے قانون سے کمائی کا ایک اور دروازہ کھل جائے گا۔‘

یاد رہے کہ صوبہ سندھ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زراعت کےشعبے سوابستہ ہے جبکہ دوسری نمبر پر مال مویشی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp