یرغمالوں کی ویڈیو نے معاملہ پیچیدہ کر دیا


بی ایل ایف کی ویڈیو

بلوچستان میں متحرک مزاحمتی گروپ بلوچستان لبریشن فرنٹ یا بی ایل ایف نے حالیہ دنوں میں تربت میں اغوا کیے جانے والے ایک درجن افراد کی ایک ویڈیو جاری کی ہے۔

اس ویڈیو نے بظاہر اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور سرحد پار کرانے والے ایجنٹوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان بطور سہولت کار گٹھ جوڑ سے متعلق کئی سوال جنم لے رہے ہیں۔

ویڈیو کی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس میں دکھائے جانے والے تمام افراد اپنا تعارف پنجاب سے کرواتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد کے نام ان 15لوگوں کی فہرست میں شامل ہے جنھیں ایران کے راستے یورپ جاتے ہوئے ظاہر کر کے گذشتہ دنوں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

البتہ ویڈیو میں یہ افراد بتا رہے ہیں کہ وہ پاکستان چین راہداری منصوبے پر کام کرنے آئے تھے کہ اغوا کر لیے گئے۔

اس ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی، تاہم اس کے سامنے آنے کے بعد لگتا ہے کہ شاید ایک فریق اس واقعے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بتایا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

اس ویڈیو میں سیالکوٹ کا حیدر علی بھی شامل ہیں جنھوں نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک گفتگو میں کچھ اور کہانی بیان کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے راستے یورپ مزدوری کے لیے جانا چاہتے تھے اور یہ کہ جب رات کے اندھیرے میں ان کے قافلے میں شامل دوسری گاڑی پر فائرنگ کی گئی تو وہ وہاں سے بھاگ گئے تھے۔

تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے پہلے یہ اغوا کار انھیں پنجگور لے کر گئے اور کہا کہ ‘ہم تم سب کو سرحد پار کرائیں گے، اس سے پہلے ویڈیو ریکارڈ کرانی ہے۔‘

حیدر علی کے مطابق ان سے کہا گیا کہ وہ اپنا، اپنے والد اور شہر کا نام بتائیں کیونکہ ‘راستے میں کوئی بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔’

حیدر علی نے اس سوال پر کہ کیا وہ جانتے تھے کہ انھیں بی ایل ایف نے اغوا کر لیا ہے، کہا کہ انھیں کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی یہ علم ہے کہ وہ لوگ ویڈیو میں ان کے ساتھیوں سے کیا کہلوا رہے تھے۔

ان کے مطابق ویڈیو بنانے کے بعد دو راتوں تک وہ انھی (بی ایل ایف) لوگوں کے پاس رہے۔ اور جب دوبارہ سفر کا آغاز ہوا تو فائرنگ کر کے کئی افراد کو ہلاک کر دیا گیا، جبکہ حیدر علی ‘فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔’

ویڈیو میں خود کو محمد حسنین نذیر کے طور پر متعارف کرانے والا ایک شخص کہہ رہا ہے کہ اس کا تعلق ‘پشاور کے علاقے حسن ابدال’ سے ہے۔ حالانکہ حسن ابدال پنجاب کے ضلع اٹک کا قصبہ ہے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں پاکستانی فوج نے سی پیک منصوبے پر روزگار کے لیے گوادر بلایا تھا: ‘ہم پنجگور سے گوادر جا رہے تھے کہ راستے میں بلوچ فریڈم والوں نے پکڑ لیا۔‘

وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پنجاب، سندھ اور پختونخوا کے شہری فوج کے کہنے پر یہاں روزگار کے لیے نہ آئیں کیونکہ بلوچستان حالتِ جنگ میں ہے۔

haider ali
حیدر علی فائرنگ شروع ہونے کے بعد گاڑی سے چھلانگ لگا کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے

حیدر علی نے ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے پہلے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن سمیت 30 افراد پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایجنٹوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر سرحد پار جا رہے تھے جہاں سے انھیں ترکی پہنچایا جانا تھا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور سے جب اس ویڈیو کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ تمام افراد دراصل یورپ سمگل کیے جا رہے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ یہ ویڈیو زبردستی بنائی گئی ہے۔’

ویڈیو میں شامل افراد میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاشیں گذشتہ ہفتے تربت کے قریبی علاقوں سے ملی تھیں۔ ان میں ہلاک ہونے والے حسن رضا، غفران، غلام ربانی، ذوالفقار علی، عبدالغفور، محمد وقاص، حسنین نذیر اور ماجد گھمن شامل ہیں۔ جبکہ ویڈیو میں دیگر افراد کے نام مجیب اللہ، علی رضا، حیدر علی، شاہد رضا ہیں۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ‘غیرقانونی طور پر یورپ بھجوانے کا لالچ دینے والے ایجنٹوں اور دہشت گردوں’ میں رابطوں اور تعاون کا امکان ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پنجاب سے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ یہ گٹھ جوڑ توڑا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp