میرے بہت سے لڑکے دوست ہیں
ہم سب پر فرح احمد نے “میڈم! مجھے لڑکے پسند ہیں” نامی مضمون لکھا جسے کافی سراہا گیا۔ کل ان کے مضمون کے جواب میں محترم ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب کا “سر! مجھے لڑکے کمینے لگتے ہیں” نامی مضمون پڑھا۔ یہ دونوں یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور انہوں نے اپنی طالبہ کی ایک بات سے متاثر ہو کر مضمون لکھا ہے۔ فرح احمد کا کہنا ہے کہ محض جنسیت ہی انسانوں کے درمیان اکلوتا تعلق نہیں ہے جبک ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کے مطابق لڑکے اور لڑکی کے تعلق میں لڑکی کا مقصد لڑکوں سے اپنی تعریف سننا ہے اور لڑکے کا مقصد لڑکی سے جنسی تعلق استوار کرنا ہے۔
میں بھی اس سلسلے میں اپنا تجربہ یہاں بیان کرنا چاہوں گی۔ میں تین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں۔ سب سے پہلے میں نے ورچوئل یونیورسٹی آف پاکستان سے ماسس کمیونیکیشن میں بیچیلرز کیا۔ اس کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈیویلپمنٹ جرنلزم میں ماسٹر کیا اور پھر کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائںہ سے میں نے انٹرنیشنل جرنلزم اینڈ کمیونیکیشن میں ایم فل کیا۔ فی الحال میں ایک ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی ہوں۔ میری یونیورسٹی اور پروفیشنل لائف میں بہت سے لوگوں سے جان پہچان ہوئی۔ ان میں سے بیشتر کے ساتھ یہ جان پہچان دوستی کے مراحل میں بھی داخل ہوئی اور آج میرے دنیا بھر میں دوست موجود ہیں جن سے میں مکمل رابطے میں رہتی ہوں۔
اگر میں اپنے دوستوں کی فہرست بنائوں تو اس فہرست میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ میں نے کبھی بھی لڑکوں سے اپنی تعریف سننے کے لیے دوستی نہیں کی بلکہ یہ دوستی ہم خیال اور ہم مزاج ہونے کی وجہ سے پروان چڑھی۔ میرا سب سے پہلا جو لڑکا دوست بنا وہ میرے سکول میں تھا۔ میرے ہی علاقے میں رہتا تھا۔ اکثر اوقات میرے گھر ہوم ورک لینے بھی آتا تھا۔ ورچوئل یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہاں بھی میرے بہت سے دوست بنے جن میں لڑکیوں کے علاوہ لڑکے بھی شامل تھے۔ ان میں سے تین چار سے ابھی بھی رابطہ قائم ہے اور ہم زندگی کے مختلف مسائل میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
ایک خاص دوست جس کا میں یہاں ذکر کرنا چاہوں گی وہ ایک نابینا لڑکا سلمان تھا۔ سلمان اور میری دوستی ورچوئل یونیورسٹی سے شروع ہوئی۔ ڈگری مکمل ہونے کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اگلے سال سلمان کا بھی وہیں داخلہ ہو گیا۔ آج ہم دونوں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ میں ایک نجی چینل کے لیے کام کرتی ہوں جبکہ سلمان قومی اسمبلی کی سوشل میڈیا ٹیم کا حصہ ہے۔ جب ہم طالب علم تھے تو ایک دوسرے کی اسائنمنٹ اور پریزینٹیشنز میں مدد کرتے تھے، جب دوستی مضبوط ہوئی تو ایک دوسرے کے نجی زندگی کے معاملات میں بھی مشورے دینے لگے اورآج جب ہم دونوں پروفیشنل ہیں تو ایک دوسرے کو کام میں بھی بہت مفید مشورے دیتے ہیں۔ سلمان نے بلاشبہ مجھے ایک بہتر انسان بننے اور زندگی کو مثبت انداز سے دیکھنے میں بہت مدد دی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں بھی میری دوستی کافی لوگوں سے رہی۔ ہمارا پانچ لوگوں پر مشتمل گروپ تھا جس میں دو لڑکیاں اور تین لڑکے شامل تھے۔ ہم پانچوں ابھی تک دوست ہیں۔ میری منگنی کے تکلیف دہ دورانیے میں ان پانچوں نے میری بہت مدد کی اور مجھے جذباتی سہارا دیا جس کی مجھے اس وقت اشد ضرورت تھی۔
کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ میں میرے تمام دوست لڑکے ہی تھے۔ اپنے ملک سے دور جا کر ملک کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہاں میں پاکستانیوں اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے قریب رہنے کی کوشش کرتی تھی۔ وہاں بھی ہمارا پانچ افراد کا گروپ تھا۔ ایک لڑکا تنزانیا سے تھا، ایک جنوبی سوڈان سے، ایک سری لنکا سے، ایک پاکستان سے اور پانچویں میں تھی۔ آخری چند مہینوں میں ایک بنگلہ دیشی لڑکی بھی ہمارے گروپ کا حصہ بنی۔ ہم لوگ رات دیر تک ہاسٹل کے استقبالیہ پر بیٹھ کر کافی پیتے تھے، اکٹھے کھانا کھانے جاتے تھے، فلم دیکھتے تھے اور سحری و افطاری بھی ساتھ ہی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ہم نے اپنے ایم فل کا مقالہ بھی لائؓریری میں اکٹھے بیٹھ کر لکھا۔
ہم میں سے ہر کوئی صبح سویرے اپنا اپنا لیپ ٹاپ اور کتابیں اٹھا کر لائبریری پہنچ جاتا تھا۔ سوڈانی لڑکا کافی لے کر آتا تھا، تنزانیہ والے کو مونگ پھلی اور کشمش پسند تھی، وہ ان کی تھیلیاں اٹھا لاتا تھا۔ میں چپس اور بسکٹ لے جاتی تھی۔ ہم ان چیزوں سے لطف اٹھاتے ہوئے خوب باتیں بھی کرتے تھے اور اپنا تھیسز بھی لکھتے تھے۔ جہاں جس کو مسئلہ ہوتا تھا اس کی مدد بھی کر دیتے تھے۔ سوڈانی لڑکے کے بیگ میں ہر وقت ایک جائے نماز موجود ہوتی تھی۔ لائبریری کے ایک کونے میں ہم باری باری جا کر نماز بھی پڑھ آتے تھے۔ اپنے ان دوستوں سے میں نے اسلام کے متعلق بھی بہت کچھ سیکھا۔
چین میں ہوم سِکنیس بھی تھی، اکیلا پن بھی تھا اور مخلوط تعلیمی ماحول بھی تھا لیکن میرے دوست صرف دوست ہی رہے۔ ہم ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے تھے۔ یہ تعریف ایک دوسرے کی ذات کی خوبیوں اور کام کے حوالے سے ہوتی تھی۔ ہم میں سےکبھی کسی نے دوسرے کی تعریف کسی جنسی تعلق کے لالچ میں نہیں کی۔ میری طرح ایسے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر کسی خاص مطلب کے دوست ہیں۔
ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان صرف جنسی تعلق ہی واحد رشتہ نہیں ہوتا۔ وہ آپس میں اچھے دوست بھی ہو سکتے ہیں۔ جیسے دو لڑکیاں یا دو لڑکے دوست ہو سکتے ہیں اسی طرح ایک لڑکا اور ایک لڑکی بھی دوست ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اب جنسیت کو اپنے ذہن سے نکال کر پھینک دینا چاہئیے۔ ہماری نوجوان نسل بہتر طور پر جانتی ہے کہ وہ کس سے جنسی تعلق قائم رکھنا چاہتے ہیں اور کس سے دوستی کرنا چاہتے ہیں۔ مخالف جنس کو دیکھتے ہی ان میں کوئی جنسی سوئچ نہیں آن ہو جاتا۔
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کے والد کو انہیں توجہ دینی چاہئیے اور ان کی تعریف کرنی چاہئیے وگرنہ وہ تعریف کے ان دو بولوں کے لیے کسی مرد کو اپنا دوست بنائیں گی اور اپنی “عزت” سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے باپ ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے دوست ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک ہٹلر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں لڑکی یا لڑکے کو دوستوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ دوست ہم عمر اور ہم خیال ہوتے ہیں۔ وہ بھی انہی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جن کا ہم ہوتے ہیں۔ان سے ہم کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ جبکہ والدین کے ساتھ جنریشن گیپ اور دیگر مسائل کی وجہ سے بات نہیں کی جا سکتی۔ ان مسائل کے لیے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔
- گریجویشن کے جوڑے یادگار کیوں نہیں ہوتے؟ - 23/01/2024
- ملتان کے ایک ٹیوشن پڑھانے والے طوائف مرد کی کہانی - 26/05/2022
- خواتین کو جنسی گھٹن سے آزادی دلائیں - 18/12/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).