سرسید پر تازہ ہنگامہ۔ سرسید اور ان کے روایت پسند مخالفین


عالمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں گزشتہ روز سرسید احمد خان کے حوالے سے ایک سیمینار وقوع پذیر ہوا۔ ایک سیشن کا کلیدی خطبہ جناب احمد جاوید نے پیش کیا۔ بعد ازاں فیس بک پر احمد جاوید صاحب کے خطاب کے حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ خورشید ندیم نے ایک کالم میں اس خطاب کا خلاصہ پیش کیا۔ جاوید صاحب کی شخصی تواضع اور شایستگی کے برملا اعتراف کے باوجود، خورشید ندیم ان کے پیش کردہ معروضات سے غیر مطمئن نظر آئے۔ اگرچہ انہوں نے اس پرکوئی تجزیہ پیش نہ کی۔

اظہار الحق صاحب نے دو کالموں میں اس تقریب کو موضوع بنایا، لیکن جذباتیت میں بہہ گئے جس سے موضوع تشنہ رہا۔ محمد دین جوہر صاحب نے ایک جوابی کالم میں جاوید صاحب کے خطبے کی تفہیم پیش کی اورسرسید پربھی گفتگو فرمائی۔ ان بزرگان سے ہمارا نیاز مندی کا رشتہ ہے اور یہی رشتہ کچھ زیادہ شدت کے ساتھ سرسید کی ذات سے بھی ہے۔ یہ تحریر اسی باہمی مناسبت کا اظہارہے جس میں نیاز مندی بھی ہے اور ناز آفرینی بھی۔

سرسید ہماری جدید تاریخ کا نقطہ آغاز ہیں اور ان کی اس حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ سرسید کی شخصی عظمت اور ان کے کار نمایاں کی تاریخی اہمیت سے انکار ان کے مخالفین کے بس میں بھی نہیں ہے۔سرسید کے تمام ناقدین انہیں ہندوستان میں جدید تہذیب کا نقیب قرار دیتے ہیں۔ سرسید اور جدید تہذیب کا باہمی رشتہ ایک پیچیدہ موضوع ہے اورسرسید کے تمام مخالفین اس مخصوص مسئلہ پر رائے قائم کرنے کے بعد ہی آگے بڑھتے ہیں۔ چنانچہ ملائیت نے سرسید کو جدید تہذیب کا پٹھو اور ایجنٹ قرار دیا جبکہ اہل روایت کے نفیس طبقے نے سرسید کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اپنے اعتراض کو مختلف شکل میں پیش کیا۔ ان حضرات کے نزدیک سرسید اپنی قوم کے حقیقی خیرخواہ تھے اور یہ جان چکے تھے کہ اب جدید تہذیب کو اپنائے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ گویا سرسید کی نیت پر شک ممکن نہیں ہرچند ان کی عملی تدبیر قوم کے حق میں مضر ثابت ہوئی۔

سرسید کے ان روایت پسند مخالفین کا ایک مکمل تناظر موجود ہے جو اکبر الہ آبادی، حسن عسکری اور سلیم احمد سے ہوتا ہوا احمد جاوید اور جوہر صاحب تک آتا ہے۔ ہمارا مکالمہ اسی روایت کی مجموعی فکر کے ساتھ ہے۔ ملائیت اور روایت پسندی میں اہم فرق موجود ہیں جن میں ایک بنیادی یہ ہے کہ ملائیت جس جگہ ”خالص اسلام“ کا لفظ استعمال کرتی ہے، روایت پسند وہاں ”تہذیب اور تہذیبی فعالیت“ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ملائیت کے نزدیک ہند میں مسلمانوں کا زوال اس لیے ہوا کیونکہ ان کا اسلام خالص نہیں رہا تھا، جبکہ روایت پسند احباب کا خیال ہے کہ ”ہند اسلامی تہذیبی فعالیت“ میں وہ جان باقی نہ رہی تھی۔

بہرحال دونوں مکاتب کے نزدیک یہ سیاسی زوال نہایت اہم واقعہ تھا اور اس نکتے پر ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن دونوں مکاتب کے نزدیک یہ واقعہ یکایک ہو گیا تھا۔ اسے عظیم تہذیبی انقطاع کا واقعہ بھی کہا جاتا ہے۔ ملائیت اور روایت پسندی کے دونوں مکاتب تاریخ کو تصور کے تابع سمجھتے ہیں اور مادی حالات میں تسلسل اور تغیر کو ثانوی اہمیت دیتے ہیں۔ اس یکایک عظیم واقعے کے بعد ملائیت اور روایت نے اس کا حل بھی اسی مجرد اور تصوارتی انداز میں پیش کیا۔ ہمارے نزدیک اس حل کی مثال آفت پڑنے پر ختم خواجگان پڑھانے جیسی ہے۔ ہندوستان میں جدیدیت کے ورود اور سرسید کے حوالے سے روایت پسندوں کی پوزیشن واضح ہے۔

وہ سرسید کی بنیادی خدمات کا انکار کرنے کے باوجود روایتاً ان کی عزت کرتے ہیں اور اس روایت کے دل سے قائل ہیں۔

سرسید اور جدید و قدیم کا یہ جھگڑا اپنی مکمل صورت میں 1857ء کے ہنگامے اور ہند پر مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے اختتام کے بعد کی صورتحال سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان کئی بار فتح ہوا تھا اور ہر بار حاکم بدل جاتے تھے لیکن انگریزوں کی فتوحات کے بعد ہندوستان کی تہذیب کو بھی براہ راست چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔

اس سے پہلے ترک، منگول اور افغان مسلم فاتحین سمیت تمام غیر ملکی حاکم بننے کے بعد برصغیر کی تہذیب کا حصہ بن جاتے تھے۔ یہ تہذیب کئی ہزار سالوں سے جامد اور محفوظ چلی آرہی تھی۔ جدید دور میں دخانی جہاز رانی کی وجہ سے تجارت کے سمندری راستے کھلے۔ یورپی تاجر بن کر آئے لیکن حاکم بن گئے۔ انگریز ان میں سب سے کامیاب رہے اور پورے ہند کے حکمران بن گئے۔ ریل گاڑی اور ٹیلی گراف جیسی ایجادات نے برصغیر کو ایک وحدت میں پرو دیا۔ وسیع و عریض نہری نظام نے مرکزیت کا یہ تصور اور بھی مضبوط کیا۔

ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار پریس متعارف ہوا اور وافر پیمانے پر کتابوں کی اشاعت شروع ہوئی۔ اس سے نا صرف ہندوستان میں شامل دور دراز کے علاقے اور اقوام آپس میں مل گئے، بلکہ خود ہندوستان باقی دنیا سے بھی منسلک ہوگیا۔ اس تمام عمل میں ہندوستان کی وہ مخصوص تنہائی ختم ہوگئی جس کی وجہ سے اس کی اندرونی تہذیب صدیوں سے جامد اور محفوظ چلی آرہی تھی۔

اس سے پہلے ہندوستان ایک خود کفیل اور خود مرتکز کلیت تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں سے لیکر سلطنت تک امور زندگی کی طے شدہ شکلیں اور انتظام موجود تھے۔ روزگار اور پیشے ذات پات پر مبنی تھے، جس سے معاشرتی طبقات وجود میں آتے تھے۔ ان طبقات کی حدود شروع سے واضح اور طے شدہ تھیں۔ سلطنت اور مذہب کا باہمی رشتہ بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسا ہی چلتا آرہا تھا۔ گاؤں سے لیکر سلطنت تک کے انتظام میں مذہب کی ایک مخصوص جگہ متعین تھی۔ انگریزوں سے پہلے ہزار سال تک مختلف مسلم اقوام نے یہاں حکومت کی، لیکن وہ سب برصغیر کی تہذیب کا حصہ بنتے گئے اور کاروبار زندگی اسی طرح چلتا رہا۔

انگریز کی آمد سے یہ سلسلہ ٹوٹ گیا، کیونکہ وہ ایک جدید نظام کے نمایندے تھے۔ انگریزوں کو ہندوستان فتح کرنے میں زیادہ وقت اور دقت نہیں ہوئی۔ ان کے لیے فتح سے زیادہ انتظام چلانا مشکل تھا۔ اسی انتظام کا بنیادی مقصد تو بلاشبہ یہی تھا کہ ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھتے ہوئے بطور حاکم اس ملک سے زیادہ سے زیادہ نفع کمایا جائے۔ لیکن زیادہ نفع کیسے کمایا جائے یہ بنیادی سوال تھا۔

اولین طور انہوں نے زیادہ سے زیادہ لوٹنا چاہا۔ اس کوشش میں قحط بنگال جیسے واقعات سامنے آئے تو انگریزوں کو پتا چلا کہ کسان سے مالیہ تبھی لیا جا سکتا ہے اگر اسے کاشت کے لیے زمین اور پانی کی سہولیات دی جائیں۔ ہندوستان کے وسیع علاقوں سے خام مال اکٹھا کیا جانا بھی ضروری تھا اور انتظام کے لیے فوج کے نقل و رسد کے ذرائع بھی لازم تھے۔ ریل نے یہ دونوں مقاصد پورے کیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ برصغیر میں صنعت کا دروازہ بھی کھول دیا اور پھر ریل بنانے کے کارخانے بھی لگنے لگے۔

برطانوی دارالعوام میں 1857ء کے ہنگامے پر بحث شروع ہوئی تو کارل مارکس مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر کارروائی نوٹ کرتا رہتا۔ انہی نوٹس سے بعد ازاں اس نے ہندوستان پر ایک مقالہ تحریر کیا جس میں ہندوستان کی تاریخ و تہذیب، انگریزوں کی حکومت اور استعماری پالیسی کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مارکس کے خیال میں استعمار کے مقاصد کا منفی اور مثبت پہلو موجود ہوتا ہے۔ منفی اور تخریبی پہلو وہ لوٹ کھسوٹ ہے جو انگریز استعمار نے ہندوستان میں کی۔ مثبت اور تعمیری پہلو سے مراد ہندوستان کے مادی حالات میں وہ بنیادی تبدیلیاں تھیں جو ہرچند منفی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کی گئیں لیکن ان سے وہ نتائج پیدا ہوئے جس سے خود ہندوستان جدید دور میں داخل ہوگیا۔

مارکس اس حوالے سے نہایت پرامید تھا کہ ریل، ٹیلی گراف، پریس، نہری نظام، جدید تعلیم، صنعت سازی اور مرکزی حکومت جیسے عوامل کی بنیاد پر جلد ہی ہندوستان میں وہ مقامی طبقہ پیدا ہوجائے گا، جو سیاسی آزادی بھی حاصل کرلے گا۔ روایت پسند حضرات استعمار کے صرف منفی پہلو تک محدود رہتے ہیں اور اس تاریخی تحرک کو نہیں سمجھتے جو جدیدیت کے بطن میں موجود ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ اپنی ضد میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ تاریخی تبدیلی کے اس اصول کو خاطر میں نہ لانے کی وجہ ہی سے روایت پسند جدیدیت کو مجرد انداز میں دیکھتے ہیں اور اس پر سراسر منفی ہونے کا لیبل لگا دیتے ہیں۔

سرسید چونکہ استعمار کے تخریبی پہلو کے اندر ایک نیا راستہ دیکھ رہے تھے، لہذا انہوں نے دریا میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے برعکس روایت پسند صرف ساحل پر بیٹھ کر رزم خیر و شر ملاحظہ کرتے ہیں اور فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ حضرات کسی انجانے میں تغیر اور روانی کو بھول بیٹھے ہوں، بلکہ ان کے یہاں سکون کی طرف رجحان شعوری طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ جس ریل کو کارل مارکس ہندوستان میں جدید صنعت کی بنیاد قرار دیتا ہے اسی ریل کی تعریف کرنے پر عسکری اور سلیم احمد غالب اور سرسید کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

روایت پسند اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہتے ہیں کہ مشرق اور مغرب میں کسی قسم کا کوئی تعامل ہو ہی نہیں سکتا اور مغرب سے کوئی لین دین نہیں رکھنا چاہیے۔ اردو روایت میں اس مشرق سے مراد اسلامی مشرق یا ہند اسلامی تہذیب ہے۔ چنانچہ ہمیں صرف ہند اسلامی تہذیب کی طرف رجعت اختیار کرنی چاہیے۔ تہذیب کو محفوظ رکھنے کی غرض سے اجتہاد کو ناپسند کیا جاتا ہے اور تقلید کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ تہذیبی روایت کو خالص رکھنے اور اس کی نمایندگی کرنے کے لیے ایک خاص طبقے کو منتخب کیا جاتا ہے جو تہذیبی رکھ رکھاؤ کا امین ہوتا ہے۔ اپنی انتہائی صورت میں یہ رجحان آرتھوڈوکسی کی طرف لے جاتا ہے جہاں سلیم احمد جیسا شخص بھی ذات پات کے معاشرتی ڈھانچے کا جواز پیش کرتا نظر آتا ہے۔

جدیدیت کے اسی محدود اور مجرد جائزے کی وجہ سے روایت پسندوں کی جدیدیت کی ہرشے میں برائی نظر آتی ہے۔ جدید علوم کی بات ہو تو الحاد کے خطرے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ جدید نظام سیاست کی بات ہو تو سیکولر ازم اور پارلیمانی جمہوریت کو پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔

سرسید پر یہ الزام لگایا جا تا ہے کہ انہوں نے مقامی لوگوں کو وحشی قرار دیا اور ہند اسلامی تہذیب کو کمتر قرار دیا، نیز یہ کہ سرسید نے استعمار کے مقابلے میں ”Other“ کی تشکیل نہیں کی، یا سرسید نے یوروپی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے صرف ظاہری اجزا کو قبول کیا۔ ایسا تبھی سمجھا جا سکتا ہے اگر جدیدیت کا محدود اور منفی پہلو ہی سامنے رکھا جائے۔ سرسید نے ہندوستانی تہذیب کے جس پہلو کو وحشی قرار دیا وہ صدیوں سے اپنی شکل پر منجمد حالت میں موجود تھا اور اس شکست کا براہ راست ذمہ دار تھا جو ہندوستان کو انگریزوں سے اٹھانا پڑی۔ ہندوستان ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہر فاتح کی جھولی میں گرنے کو تیار رہتا تھا۔

مارکس نے اسی نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہندوستان پر برطانوی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے مقامی وسائل سے ہی ایک مقامی فوج قائم کی گئی ہے، جو اپنے ملک کو غلام بنائے رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ تہذیب کا یہ جامد حصہ جسم کا وہ عضو تھا، جسے کاٹ دینا مناسب تھا۔ انگریزی استعمار وہی نشتر تھا جس کے بغیر برصغیر کا جامد معاشرہ جدید تاریخ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔

سرسید اس عظمت کے گھمنڈ میں نہ آئے جو قصہ ماضی بن چکی تھی۔ آپ نے جدید کے ساتھ قدم رکھا اور اس میں شان خلاقی کا پورا لحاظ رکھا۔ سرسید کی تعلیمی تجاویز و تدابیر سے وہ مسلم طبقہ پیدا ہوا جو سرکاری نوکری کا اہل تھا۔ اس طبقے کے تاریخی کردار کے باعث مسلمان دو قومی نظریے تک پہنچتے ہوئے ایک علیحدہ وطن بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ سرسید کی جدیدیت کا مکمل رد کرنے کے باوجود روایت پسند احباب دو قومی نظریہ پر مکمل حق جتاتے ہیں۔ ہمیں اس معجز آرائی کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔

کہا جاتا ہے کہ سرسید کی تعلیمی تجاویز دراصل لارڈ میکالے کی پالیسی کا تسلسل تھیں۔ لارڈ میکالے کی شخصیت بذات خود بہت اہم ہے اور ایک علیحدہ مضمون کی متقاضی ہے۔ ڈاکٹر ساجد علی اس حوالے سے دو مضامین تحریر کر چکے ہیں۔ میکالے وہ شخص ہے جس کی مخالفت میں سوشلسٹ اور جماعت اسلامی ایک صف میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ میکالے سے منسوب وہ مشہور اقتباس جس میں پورے ہندوستان کی سیر کرنے کے بعد اسے وحشی قرار دینا شامل ہے تاریخی طور پر درست نہیں ہے۔ ایسا کوئی اقتباس میکالے سے سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔ میکالے کی ایک تقریر ضرور موجود ہے جس میں وہ ہندوستان کے تعلیمی نظام پر رائے دیتا نظر آتا ہے۔

میکالے کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ کمپنی نے ہندوستانیوں میں شرح تعلیم بلند کرنے کے لیے جو فنڈ مقرر کیا ہے، اس سے جدید علوم کی اشاعت کی جائے۔ کیونکہ قدیم علوم ایک تو جدید دنیا میں کارگر نہیں ہیں، دوسرا یہ کہ قدیم علوم کے طالب علموں کو ہم وظیفہ دے کر پڑھاتے تو ہیں، لیکن ان کے کرنے کو کوئی نوکری موجود نہیں ہوتی۔ سنسکرت اور عربی میں موجود سائنس، طب، فلکیات وغیرہ اب کہیں استعمال نہیں ہوتیں۔ اس کا خیال تھا کہ برصغیر میں جدید علوم انگریزی میں پڑھائے جائیں، تاکہ یہاں وہ طبقہ پیدا ہوسکے جو ان جدید علوم کو مقامی زبانوں میں منتقل کرسکے، تاکہ باقی عوام کی تعلیم ممکن ہو۔

اس حوالے وہ پندرھویں صدی کے برطانیہ اور انیسویں صدی کے روس کی مثال دیتا ہے، جسے ترقی کرنے کے لیے ایک عبوری وقت میں غیرملکی زبانوں کا آسرا لینا پڑا۔ میکالے کے خیال میں ہندوستان میں بھی اب انگریزی کو پڑھانا ضروری ہوگا، تاکہ یہ معاشرہ جدید دور میں داخل ہوسکے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ احباب، اسلام کے غلبے کے بعد عربی زبان کے غلبے پر بات نہیں کرتے لیکن انگریزوں کے غلبے کے بعد انگریزی زبان پر اعتراض کرتے ہیں۔ میکالے نے دلچسپ اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں کہ کیسے عربی اور سنسکرت کی ہزاروں کتابیں سرکاری خرچے پر چھاپی گئیں، لیکن کوئی خریدتا نہیں ہے۔ جبکہ ہندوستان ہی میں انگریزی کا قاعدہ دھڑا دھڑ بک رہا ہے اور مقامی لوگ خود سے خرید رہے ہیں۔

میکالے کی تعلیمی پالیسی سے ہندوستان میں جدید علوم انگریزی میں پڑھائے جانے لگے۔ فزکس، بیالوجی، طب اور فلکیات سمیت جدید علوم کے ادارے قائم ہوئے۔ اس نے وہ ہنرمند پیدا ہوئے جو جدید نظریات سے واقف تھے۔ انہی حضرات نے بعد ازاں سیاسی آزادی کی جدوجہد چلائی۔ میکالے پر اعتراض کرتے ہوئے اس کا متبادل نہیں بتایا جاتا اور بتایا جانا ممکن بھی نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے برصغیر میں مرکزی سطح پر کوئی منظم تعلیمی نظام موجود ہی نہیں تھا۔ ہندو اور مسلمان اپنی مذہبی علوم کو روایتی انداز سے مندروں اور مسجدوں، مدرسوں میں پڑھاتے تھے۔

میکالے کے چیلنج کا جواب بھی نو آبادیاتی پس منظر میں دیا جاتا ہے، حالانکہ نوآبادیاتی تناظر اس وقت تک ممکن ہی نہیں، جب تک استعمار اور جدیدیت کو متحرک انداز میں منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سمیت سامنے نہ رکھا جائے۔

اس حوالے سے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ سرسید نے جو اینٹی تھیسس استعمال کیا، وہ بیرونی تھا۔ اندرونی اور بیرونی کے یہ تعینات دور جدید سے پہلے بامعنی تھے لیکن اب نہیں۔ جدید دور ایک بڑا نظام ہے جو ہرغیر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور یوں اس کی نفی بھی اس کے بطن سے برآمد ہوتی ہے۔ مارکسیت، وجودیت اور مابعد جدیدیت اسی طرح جدیدیت کی نفی خود جدیدیت کی اندرونی حرکیات سے نکالتے ہیں۔

روایت پسندی چونکہ جدیدیت کا محدود پہلو سامنے رکھتی ہے لہذا اس کا منشا رہتا ہے کہ منفی جدیدیت کے مقابلے کے لیے اپنے ماضی کی مثبت روایت سامنے لائی جائے۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ دور جدید کو اسی وجہ سے دور جدید کہا جاتا ہے کہ اس کی نفی بھی اسی کے اندر موجود ہے اور من و تو کے قدیم تعینات اب باقی نہیں رہے۔ سرسید نے ماضی پرستی کی بجائے جدیدیت کے تضاد کو پہچان لیا اور اس پرخطر راستے پر سورما کے انداز میں چلے۔

سرسید اپنی جدت پسندی کے باوجود وضع قطع اور اظہار میں روایتی شخص تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے تجویز کردہ جدید علوم کے بعد الحاد پھیلے گا، لہذا انہوں نے خود سے ایک جدید علم الکلام کی بنیاد بھی ڈالی۔ ہمارے خیال میں جدید علم الکلام کی ضرورت خود ان علوم کے ”آغاز“ کی ضرورت تھی، نا کہ ان علوم کے ”نتیجے“ سے نمٹنے کی کوشش۔

سنسکرت اور عربی پر مشتمل مقامی علوم اور ان سے پیدا ہوئے روایتی شعور کی سطح ابھی ان علوم کے آغاز سے بھی خوفزدہ تھی اور علوم تو کیا انگریزی زبان تک سے خائف تھی۔ سرسید کے علم الکلام کا ایک بڑا حصہ عملی معاملات سے متعلق تھا، جن کی وجہ علوم نہیں بلکہ انتظامی مسائل تھے۔ مثلا اہل کتاب کے ساتھ مل کر کھانا پینا یا ان سے تعلق رکھنے جیسے معاملات۔ سرسید کا علم الکلام بالفرض اگر الحاد کو روکنے کی نیت ہی سے تھا تو اس حقیقت کو مان لینا زیادہ بہتر ہے، کہ ہمارا روایتی فہم دین جدید علم اور جدید ذہن کے ساتھ چلنے کا اہل نہیں ہے اور ہمیں اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ نتیجے اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ جدید علوم اور سرسید کی تجویز کو سرے سے رد کر دیا جائے۔

ہر چند سرسید اس جہت سے روایتی شخص تھے لیکن روایت پسند انہیں سمجھ نہیں سکے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ سرسید کے بعد کے جدیدیت پسند دیکھ کر روایت پسند زیادہ جھنجلا گئے۔ میری مراد ترقی پسند تحریک ہے۔

یہاں مارکس کا سوال دُہرانے کی ضرورت ہے. آپ ایک سرمایہ دار سے آخر کیا امید رکھتے ہیں؟ سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا ہے کہ اپنے منافع کے لالچ میں وہ مادی حالات پیدا کردے جن کی ترویج سے ایک دن عوام بھی سیاسی آزادی پا جائیں۔ لیکن یہ کام سرمایہ دار کا سردرد نہیں ہے کہ وہ عوام کے انبوہ عظیم کو خود سے اٹھا کر بلند کردے۔ یہ کام عوام کو خود کرنا پڑتا ہے۔ روایت پسند اس سوال کے ساتھ وہ خدائی قانون بھی شامل کرلیں کہ خدا بھی ایک قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود بدلنے پر راضی نہ ہو۔

آخر سرسید کی جدت پسندی اور تغیر شناسی پر کیا اعتراض بچتا ہے؟ اگر استعماری سرمایہ دار کی کمزوریوں (مادی حالات میں تبدیلی) اور طاقت (علوم و فنون) دونوں سے استفادہ منع ہے تو پھر محکوم قوم کو صرف خدائی مدد کا انتظار ہی کرنا چاہیے۔

روایت پسندی دراصل اسی انتظار کی مصروفیت کا دوسرا نام ہے۔ اس انتظار کے دوران ماضی کو مثالی صورتوں میں یاد رکھنے کی سرگرمی اختیار کی جاتی ہے اور کسی ایسے اوتار کا انتظار کیا جاتا ہے جو پیکار اور تضاد کے اس دور میں نازل ہو اور تمام ناپسندیدہ چیزوں کا خاتمہ کردے۔

روایت پسندی کی جدید شکل کو ایک اور تضاد کا سامنا بھی درپیش ہے۔ روایت پسندی کی عالمی تحریک مغرب اور جدیدیت سے مقابلہ کرتے ہوئے ہندو مت کی تہذیبی روایت کو بطور مثال پیش کرتی رہی۔ تاہم یہ تحریک اپنی مجموعی صورت میں جمع ادیان کی قائل ہے، جس میں تمام مذاہب چھوٹے بڑے اختلافات کے باوجود بطور ذریعہ حقیقت کی طرف لے جانے میں یکساں مفید سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اردو روایت پسندی ایک خاص اعتبار سے ”ہند اسلامی تہذیب“ کی رومانیت میں مبتلا رہنے کے بعد روایتی اسلامی سیاست میں بھی بنیاد پرستی اور شدت کا شکار ہوچکی ہے۔ جمع ادیان اور سیاسی اسلام کی روایتی شکل کا آپس میں کوئی تال میل نہیں ہے۔

روایت پسندی سیکولر ازم کی مخالفت سے سیاسی میدان میں جمع ادیان سے پیچھے ہٹ چکی ہے لیکن جدیدیت کے مقابلے میں ایک تہذیبی روایت کو فرض کرتے ہوئے جمع ادیان اور روایت کے وسیع تر تناظر میں تمام مذہبی مظاہر سے استفادہ کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).