نیا روسی انجن ڈیڑھ ماہ میں مریخ پہنچا دے گا


\"mars\"

روس میں تیار کردہ نیا انجن مریخ تک سفر کو ڈیڑھ ماہ پر محیط کر سکتا ہے

روس کی ایجاد کے سبب مریخ قریب آ جائے گا۔ ڈیڑھ ماہ کے سفر کے بعد آپ سرخ سیارے پر پہنچ جائیں گے۔ بات بظاہر غیر حقیقی لگتی ہے لیکن ایسے انجن کا پہلا تجرباتی نمونہ دو سال بعد سامنے آ جائیگا۔

۔\”روس کوسموس کے ساتھ مل کر ہم ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں جو مریخ کے سفر سے متعلق ہے\” سرکاری کارپوریشن برائے جوہری توانائی \”روس ایتوم\” کے جنرل ڈائریکٹر سرگئی کری اینکو نے بتایا۔ اب تک جو ٹکنالوجی ہے اس کی مدد سے مریخ پر ڈیڑھ سال میں پہنچا جا سکتا ہے، واپس نہین آیا جا سکتا اور نہ ہی خلائی جہاز کو بہت زیادہ ادھر ادھر کیا جا سکتا ہے۔ خلائی جہاز ایک بار چلا دیا جائے تو پھر معینہ راستے پر گامزن رہتا ہے۔ نیا مجوزہ انجن جس میں جوہری توانائی کا استعمال ہوگا، مریخ کے سفر کو ڈیڑھ ماہ تک مختصر کر دے گا اور وہاں سے لوٹا بھی جا سکے گا کیونکہ اس میں موڑنے کی صلاحیت برقرار رہے گی۔

ایسا انجن تیار کیے جانے پر 1960 کی دہائی سے سوویت اور امریکی سائنسدانوں نے کام کرنا شروع کیا تھا۔ تاحتٰی اس سلسلے میں تجربہ بھی کیا گیا تھا۔ اکیسویں صدی میں روسکوسموس،ناسا، یورہی خلائی ایجنسی اور نجی ایجنسی سپیس ایکس نے طے کیا تھا کہ ہر صورت میں مریخ تک پہنچا جائے اور اگر ہو سکے تو سرخ سیارے پر بستی بھی بسائی جائے۔

فی الحال بلاگز میں اندازے لگائے جاتے ہیں کہ کب کیسے اور کس لیے۔ ناسا مریخ کے سفر کی تیاریاں کر رہی ہے۔ یہ مہم 2020 میں روانہ ہونی چاہیے۔ آٹھ افراد کی ٹیم پہلے ہی منتخب کی جا چکی ہے جس میں مرد اور عورتیں مساوی تعداد میں ہیں۔ ان میں ماہر موسمیات، ماہر بیہوشی، سرجن اور عسکری بحری فضائیہ کے پائلٹ شامل ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ سرخ سیارے پر پانی ہوگا یا ہیں۔ پانی ڈھونڈا جا چکا ہے لیکن کھاری، قابل استعمال نہیں جیسے کہ زمین پر ہے۔ اور آب و ہوا بھی غالبا\” طیاروں کی پروازوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔ مریخ پر بارودی سرنگیں ہٹانے والے ماہر کو بھیجا جانا کیوں ضروری ہے ، یہ ایک بہت تند سوال ہے؟

جب ناسا نے مریخ کو پائلٹ والی مہم بھیجنے کا اعلان کیا تھا تو بہت سی غیر ملکی خلائی ایجنسیوں کو باور کروا دیا تھا کہ ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، واشنگٹن میں خلائی پالیسی کے امریکی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سکاٹ پیس کہتے ہیں،،، تزویری حوالے سے امریکہ نے تحقیق کی وہ جہت چنی ہے جس سے ممکنہ طور پر بین الاقوامی اہلکاروں کی شمولیت کو خارج رکھا جائے اور معاصر دنیا کے بہت زیادہ اہم وسائل کو استعمال کیا جائے۔

\”لگتا ہے کہ ناسا اس تشخص سے آزاد ہو گئی ہے جو اسے حکومت کے ساتھ ملحق رکھے\”، ناسا کے سابق اہلکار اور جریدے \”سپیس فلائٹ\” کے مدیر ڈیوڈ بیکر سمجھتے ہیں۔ سماج کا سوال یہ ہے کہ ناسا ایسی شرائط رکھ رہا ہے جن کا حقائق سے واسطہ نہیں ہے۔ نیا خلائی جہاز \”اوریون\” صرف تین ہفتے تک خودمختار طریقے سے پرواز کے قابل ہے۔ وہ کئی مہینوں کی مریخ کی پرواز میں خلابازوں کی زندگی کی ضمانت نہیں دیتا۔ مریخ کی پرواز کا حالیہ منصوبہ اپنے غیر سوچے سمجھے پن اور غیر معاصر پن کے سبب خطرناک ہے\”۔

روس کوسموس ابھی بلند بانگ دعوے نہیں کر رہی البتہ عرق ریزی کے ساتھ محنت کر رہی ہے۔ منصوبہ تب بنایا جائے گا جب جوہری انجن کام کرنا شروع کر دے گا تاکہ امریکیوں کی طرح جیسے ناسا اور سہیس ایکس والوں سے غلطیاں ہوئی ہیں ویسی غلطی نہ ہو۔ نجی کمپنی سپیس ایکس کی مریخ سے بات ابھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ ریپٹر نام کا راکٹ کا انجن ابھی تیار نہیں ہوا ہے۔ اسے 2018 تک تیار کیے جانے کا دعوٰی کیا گیا ہے تاہم سپیس ایکس کے سابقہ دعوے بھی مدت معینہ پر پورے نہیں کیے جا سکے تھے۔

 بشکریہ روسی ویب سائٹ جانیے روس کے بارے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments