معلومات تک رسائی کے قانون سے کیریئر بنانے والا صحافی


انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹر نے اپریل 2007 میں اپنے رپورٹرز کو ایک ای میل بھیجی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر رپورٹر تین ایسی خبریں جمع کرائے جن پر معلومات تک رسائی کے حق (آر ٹی آئی) کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقات کی جا سکیں۔ یہ ای میل وصول کرنے والوں میں شیام لال یادو بھی شامل تھے۔ وہ بھارت کے معلومات تک رسائی کے قانون کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، یہ قانون محض دو برس پرانا تھا۔ اس کے باوجود تین خبروں کی تجاویز اپنے ایڈیٹر کو پیش کیں جو انہیں بہت پسند آئیں۔ ایڈیٹر نے ان کی تجاویز پڑھنے کے بعد تبصرہ کیا کہ ’’آپ کو ان خبروں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جن پر آر ٹی آئی کے ذریعے کام کیا جاسکے۔‘‘ اس طرح سے شیام لال نے آر ٹی آئی کو استعمال کرنا شروع کیا۔ شیام لال ایک سے دوسرے اخبار میں ملازمت کرتے رہے، انڈیا ٹوڈے سے وہ دی انڈین ایکسپریس میں چلے گئے لیکن ان کا معمول وہی رہا۔ وہ جب دفتر آتے تو مختلف محکموں میں معلومات کے لئے درخواست دائر کرتے، زیر التوا درخواستوں پر کتنا کام ہوا اسے معلوم کرتے اور معلومات کے لئے دی گئی درخواستوں پر جو کچھ معلوم ہوتا اس پر مزید کام کرتے۔

ان کے کریڈٹ پر اس وقت 7 ہزار آر ٹی آئی درخواستیں موجود ہیں۔ مجھے ان سے جوہانسبرگ (جنوبی افریقا) میں ہونے والی گلوبل انویسٹی گیٹیو جرنلزم کانفرنس میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انہوں نے مجھے اپنی وہ کتاب ، ’’جرنلزم تھرو آر ٹی آئی‘‘، دکھائی جس میں ان کے کام کو دستاویز حیثیت دی گئی ہے۔ انہوں نے بھارت میں شفافیت کے اس قانون کی تاریخ کی تدوین کی ہے، اس قانون سازی کو استعمال کرتے ہوئے جو بڑی خبریں دیں ان کے اثرات کے بارے میں بتایا ہے۔ ان کی کتاب کا مطالعہ ایک مسحورکن تجربہ ہے۔ یہ ان صحافیوں کو متاثر کرتی ہے جو کسی ایجنڈے کے بغیر صحافت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آر ٹی آئی کا قانون رپورٹر کی ذرائع کے استیصال سے جان چھڑا دیتا ہے، یہ غور کرنے کا ایک اور نکتہ ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جن کے پاس معلومات ہوتی ہیں، اسے اجاگر کرنے میں ان کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ مفادات سے بالاتر جو کچھ ہوتا ہے اسے چھپا لیا جاتا ہے۔

معلومات کے ملنے میں امتیازی سلوک بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ بڑے میڈیا ہاؤس میں کام کرنے والے صحافیوں کو یہ معلومات زیادہ تر حاصل ہوتی ہیں۔ آر ٹی آئی کے قانون کی وجہ سے معلومات کا حصول عام ہوجاتا ہے۔ ملک کا کوئی بھی شہری خواہ وہ صحافی ہو یا نہ ہو اس قانون کے تحت ان تفصیلات کے حصول کے لئے درخواست دائر کر سکتا ہے۔ شیام لال کے تجربے کی ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ معلومات اکٹھا کرنے کا کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ اگر آر ٹی آئی کے قانون کو بھی استعمال کیا جائے تب بھی آدمی کو بڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ سرکاری چینل سے جمع کی جانے والی تفصیلات افشا ہونے والی معلومات کے مقابلے میں زیادہ قابل بھروسہ ہوتی ہیں۔ حکومت کے لئے اپنی ہی دستاویزات کے انکار کرنا کا راستہ نہیں ہوتا۔ وہ اس چیز کی عملی مثال ہیں کہ ایک صحافی کو آر ٹی آئی کے قانون کے ذریعے چھان بین کے عمل کے دوران کیا کرنا پڑتا ہے۔ 2007 میں جب انڈیا ٹوڈے کے ایڈیٹر نے خبروں سے متعلق آئیڈیاز طلب کیے تھے تو انہوں نے تین میں ایک تجویز جو پیش کی تھی وہ وفاقی وزرا کے غیر ملکی دوروں سے متعلق معلومات جمع کرنے کے حوالے سے تھی۔

اس سلسلے میں سفر کی دستاویز کے حصول کے لئے انہیں 59 آر ٹی آئی درخواستیں جمع کرانا پڑی تھیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے دفتر، کابینہ سیکرٹریز اور مختلف وزارتوں کو لکھا۔ ان معلومات کی بنیاد پر جو خبر بنی وہ اس شہ سرخی ’’اکثر و بیشتر فضائی سفر کرنے والے‘‘ کے ساتھ شائع ہوئی۔ دیگر اخبارات اور ٹی وی چینلز نے فورا ہی اس کو اٹھالیا اور وزیراعظم کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے وزرا کو غیرملکی دورے کم کرنے کی ہدایت کریں۔ یہ ان کی آر ٹی آئی کے قانون کے ذریعے کی جانے والی پہلی اسٹوری تھی۔ اس کے بعد سے انہوں نے ایک ایسے صحافی کے طور پر اپنا کیرئیر بنایا جس نے تحقیقاتی رپورٹنگ کے لئے نہایت ’’بے دردی‘‘سے اس قانون کا استعمال کیا۔ بھارتی دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کے معیار کو جاننے کے لئے ان کے تجسس کی وجہ سے انہوں نے مختلف محکموں میں 39 درخواستیں دائر کیںاور انہیں ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔ انہوں نے بیوروکریسی میں کرپشن اور عوام کی قیمت پر بری حکمرانی کے بارے میں کئی خبریں دیں۔ 2016 میں شیام لال کو وزیراعظم نریندر مودی کے اہم ترین منصوبے ’’جن دھن‘‘ اسکیم میں مسائل کے بارے میں معلوم ہوا، جس کا مقصد بینک اکاؤنٹس جیسی مالیاتی خدمات تک رسائی کو یقینی بنانا تھا۔ یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔

بہت سے بھارتی جنہوں نے بینک اکاؤنٹس کھلوائے ان میں صفر بیلنس تھا۔ بینکرز کو ایسے تمام اکاؤنٹس میں ایک روپیہ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔ اس منصوبے کا مقصد ایسے کھاتوں کی تعداد کو کم کرنا تھا جن میں کوئی رقم موجود نہیں تھی۔ شیام لال نے مختلف بینکوں میں درجنوں درخواستیں جمع کرائیں تاکہ وہ کھاتے جن میں صفر یا ایک روپے سے کم یا دس روپے یا اس سے زیادہ رقم تھی ان کی تعداد معلوم کی جاسکے۔ جب معلومات آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے کھاتے داروں کو چیک کرنے کے لئے از خود لوگوں سے ملنے کے بارے میں سوچا۔ ایسے کئی لوگ جن کے کھاتوں میں بیلنس ایک روپیہ تھا انہوں نے شیام لال کو بتایا کہ انہوں نے کبھی ایک پیسہ بھی جمع نہیں کرایا۔ ستمبر 2016 میں انہوں نے ایک مفصل خبر جاری کی کہ کس طرح بینکوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وزیراعظم اسکیم کے تحت کھولے گئے بینک کھاتوں میں معمولی رقم جمع کرائی جائے۔ شیام لال نے آر ٹی آئی کے ذریعے رپورٹنگ کے متعلق کسی کو دھوکے میں نہیں رکھا کیونکہ اس میں وقت، توانائی اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں شیام لال کو 2011 سے جانتا ہوں جب ہماری یوکرین میں ملاقات ہوئی تھی۔

اس وقت بھی ہمیں گلوبل انوسٹی گیٹیو جرنلزم کانفرنس نے ملایا تھا۔ آر ٹی آئی قانون کو موثر بنانے میں ان کا کردار پہل کرنے والے کا ہے۔ اس پر عمل کرنے کا مطلب اس قانون کو نافذ کرنا ہے۔ ان کے اخبار کی انتظامیہ کو بھی آر ٹی آئی کی بنیاد پر رپورٹنگ کو فروغ دینے کا کریڈٹ جاتا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اگر شیام لال کو اپنے ایڈیٹر کے ذریعے آر ٹی آئی قانون کے بارے میں معلوم ہوا تھا تو میں نے بھی اپنے پبلشر سے آر ٹی آئی کے بارے میں پہلی مرتبہ سنا تھاجو اس کے بارے میں بہت پرجوش تھے۔ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے دی جانے والی کوئی بھی خبر یا آر ٹی آئی سے متعلق کوئی مسئلہ کسی اور میڈیا ہاؤس کے مقابلے میں جنگ گروپ میں بہتر کوریج حاصل کرتا ہے۔ اس گروپ کے کئی صحافیوں نے آر ٹی آئی چیمپئن ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ اس ادارے کے صحافیوں کی اس قانون پر عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اکثر ایسا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).