کیوبا میں ایک ہفتہ


ہم ہر وقت، شعوری یا لاشعوری طور پر، چیزوں کا موازنہ کرتے رہتے ہیں ۔ مماثلتیں اور فرق دیکھنے کا یہ عمل سفر میں تیز تر ہو جاتا ہے۔ ہوانا (Havana) کا ہوائی اڈا ایک پرانی عمارت ہے جس میں جدید ہوائی اڈوں پہ درکار تقریباً تمام سہولتیں میسر ہیں، اگرچہ کم سے کم۔ امیگریشن اور کسٹمز کاعملہ دوستانہ اور خوش مزاج تھا۔ ان میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔ لوگوں کا رنگ اور نقش و نگار برصغیر اور مشرقی وسطی کے باشندوں جیسے تھے۔ ہم باہر نکلے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور رات ہو چکی تھی۔ ہمیں پہلی خوشگوار حیرت، آتی جاتی، رنگ برنگی، چھوٹی بڑی گاڑیاں دیکھ کے ہوئی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کھلونوں کی دکانوں میں رکھی ہوئی گاڑیاں بڑی ہوکے سڑک پہ آ گئی تھیں ۔ 1959 کے انقلاب کے وقت کیوبا پہ تجارتی پابندیاں عائد کر دیئے جانے کے بعد موجود کاروں، اور جہاں جہاں سے ممکن ہوا، پرانی کاروں کو حاصل کر کے سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ جو ہم دیکھ رہے تھے ان میں سے کچھ گاڑیاں، مثلاً شیورلِٹ، مرسیڈیز، فورڈ اور سکوڈا، میں نے بچپن میں لاہور میں دیکھی تھیں ۔ بعض کاریں اتنی چمچماتی ہوئی تھیں جیسے سیدھی شو روم سے لائی گئی ہوں جبکہ بعض اتنی کھٹارا کہ خیال آتا کہ یہ کباڑ خانے تک بھی کیسے پہنچیں گی۔ ہمارے وفد میں شامل تاریخ کی استاد، اونا ڈوئل (Una Doyle)، نے بتایا کہ وہ پہلے بھی کیوبا آچکی تھی اور اس کی کچھ سہیلیاں اکثر یہاں آتی رہتی ہیں، کیونکہ انہیں کیوبا اچھا لگتا ہے۔ کیوبا کے مکینک مشینری کی مرمت کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اور اگروہ کوئی مشین ٹھیک نہ کر سکیں تو اس کے پرزے کسی اور استعمال میں لے آتے ہیں ۔ اس عمل کو technological disobedience کا نام دیا گیا تھا۔ یعنی کوئی مشین یا پرزے کسی ایسے مقصد کے لئے استعمال کیے جائے جس کے لئے وہ بنائے نہ گئے ہوں ۔ چند ہفتے قبل آنے والے طوفان کے نتیجے میں ایک پوری بستی کی برقی رو منقطع ہو جانے پر موبائل فون چارج نہ ہو سکے۔ ایک مکینک نے دو کار بیٹریوں سے ایک چارجر بنایا جس سے سینکڑوں فون چارج ہوئے۔

وفد شعبہ تعلیم سے وابستہ چوبیس خواتین و حضرات پر مشتمل تھا۔ دورے کا اہتمام کیوبا سولیڈیریٹی مہم (Cuba Solidarity Campaign) اور نیشنل یونین آف ٹیچرز کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔ ہماری ٹیم لیڈر نیشنل یونین آف ٹیچرز کی سابق صدر فلیپا ہاروے (Philipa Harvey) تھیں اور ٹور کے رہنما، مصنف اور محقق ڈاکٹر برنرڈ ریگن (Bernard Regan) تھے۔ ہمارا گائیڈ، جو ایبرو (Joel Abrou)، نیلسن منڈیلا سمیت متعدد اہم شخصیات کا مترجم رہ چکا تھا۔ کیوبا میں ہسپانوی زبان بولی جاتی ہے۔ وفد میں ہسپانوی زبان کے کچھ اساتذہ کی شمولیت ترجمانی کی اضافی سہولت تھی۔ میں نے مانچسٹر یونیورسٹی میں دو مقالے، ’پاکستان میں خواتین کی تعلیم‘ اور ’پاکستان میں خواندگی‘ کے موضوعات پر، بالترتیب، 1991 اور 2001میں، ایم ایڈ اور ایم فل کی ڈگریوں کے لئے لکھے تھے۔ کیوبا میں 1961 میں، فیڈیل کیسٹرو (Fidel Castro) کی قیادت میں چلائی گئی کامیاب خواندگی مہم کی تفصیلات سے مجھے خاص دلچسپی تھی۔

کیوبا میں کرنسی کا دہرا نظام رائج ہے۔ مقامی لوگ عام طور پہ کیوبن پیسو (Cuban Peso) جبکہ باہر سے آنے والے قابل انتقال کیوبن پیسو (Convertible Cuban Peso) استعمال کرتے ہیں ۔ موخرالذکر ایک پیسو ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے، لیکن ہمیں ہدایت کی گئی تھی کہ اپنے ساتھ برطانوی پاﺅنڈ یا یورو لے کر جائیں ۔ سکینڈے نیویا کی کرنسی بھی ٹھیک ہے۔ امریکی ڈالر تبدیل کرنے پہ دس فیصد اضافی کمیشن یا ’جرمانہ‘ کاٹا جاتا ہے۔ میں نے مانچسٹر میں کوشش کی کہ اپنے بینک یا کسی ٹریول ایجنٹ سے کیوبا کی کچھ کرنسی حاصل کر لوں لیکن بتایا گیا یہ صرف وہیں ملے گی۔ وہاں جا کے ہمیں ایک پاﺅنڈ کے سوا پیسو ملتے۔

ہوانا میں ہمارا قیام سیویلا (Sevilla) ہوٹل میں تھا۔ انقلاب میوزیم اور آرٹ میوزیم قریب ہی تھے، چنانچہ دورے کا آغاز یہیں سے کیا۔ سڑکیں صاف ستھری تھیں اور ٹریفک نظم و ضبط کی پابند۔ انقلاب میوزیم تقریباً نصف صدی تک صدارتی محل رہا تھا۔ آرٹ میوزیم (Museu Nacional de Bellas Artes) کیریبین میں سب سے نفیس آرٹ گیلری ہے۔ یہاں کیوبا کے آرٹ کے جامع ترین نمونے موجود ہیں ۔ ایک کوریڈور میں کچھ ساتھیوں نے میری توجہ ایک بڑی پورٹریٹ کی طرف دلائی اور ایک نے کہا: یہ تم ہو۔ میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی، کہ یہ شاعر، مصنف اور انقلابی رہنما ہوثے مارتی (Jose Marti)کی تصویر تھی۔ ہوثے سپین کے خلاف کیوبا کی جنگ آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی بنا پر جدو جہد کی علامت بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ چند لمحوں کی مماثلت بھی ایک اعزاز ہے (اگلے روز ایک اور ساتھی نے ایک سکول میں ہوثے کے خاکوں اور قدآدم شبیہ کے ساتھ میری تصویر کھینچی اور دوسروں کو دکھائی)۔ ہم نے شہر کے پرانے اور مرکزی حصے کی سیر کی، لنچ کے بعد قدیم ہوانا دیکھا، پھرانقلاب پلازا گئے۔ یہ ایک بڑا پختہ میدان تھا جس کی ایک جانب دو بڑی بڑی عمارتوں پہ برقی ٹیوبوں کی مدد سے چے گوارا (Che Guevara) اور ایک اور رہنما کے چہروں کے خدوخال، سات آٹھ منزلہ عمارت جتنی بلند دیواروں پہ بنائے گئے تھے جو دن میں پنسل سکیچ کی طرح لگتے اور رات کو روشن ہو جاتے۔ میدان کی دوسری جانب ہوثے مارتی یادگار تھی۔ یہ ساڑھے تین سو فٹ بلند ٹاور تھا اور اس کے آگے ہوثے کا ساٹھ فٹ اونچا سنگ مرمر کا مجسمہ۔

شام کو ہم معروف ریستوران ایل فلوریڈیٹا بار (El Floridita Bar) میں گئے جہاں ارنسٹ ہیمنگ وے (Earnest Hemingway) باقاعدگی سے جایا کرتا تھا۔ یہاں اسے پیار سے پاپا کہا جاتا تھا اور اس کے پسندیدہ مشروب کو ہیمنگ وے ڈیکری (Hemingway Daquiri )  کا نام دے دیا گیا۔ اسے پاپا ڈبل (Papa Doble) یا ہیمنگ وے سپیشل (Hemingway Special) بھی کہتے ہیں ۔ میں نے یہاں نصب ہیمنگ وے کے خوبصورت مجسمے کے ساتھ تصویر بنوائی۔

دونوں شہروں میں جن مختلف تنظیموں کے نمائندوں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں ٹریڈ یونین (SNTECD) کے سینئر ارکان اور کیوبن خواتین فیڈریش (FMC)، انسٹی ٹیوٹ فار فرینڈشپ ود پیپلز (ICAP)، ٹیچنگ یونین اور سٹوڈنٹس فیڈریشن (FEU) کے نمائندے شامل تھے۔ ان سے ان کے اداروں کے داخلی معاملات سے لے کر مقامی اور قومی پالیسیوں میں ان کے کردار پہ تفصیلی مکالمے ہوئے۔

ہمیں بتایا گیا کہ روزگار اور رہائش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ گھر سب کو ملے گا، بے شک چھوٹا ہو (ہم نے ایسے چھوٹے چھوٹے سینکڑوں مکان دیکھے)۔ ہر شہری کو، اس کی ضرورت کے مطابق، دستیاب طبی سہولتیں بلا معاوضہ اور بلاامتیاز حاصل ہیں ۔ کیوبا میں متوقع عمر جو کبھی پچاس پچپن سال تھی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے فراہم کردہ 2015کے اعداد و شمار کے مطابق 79 برس ہے، یعنی امریکہ کے برابر اور برطانیہ سے دو برس کم۔ ملک کے تمام سکولوں میں ایک جیسی اور ایک معیار کی تعلیم دی جاتی ہے؛ سب کی یونیفارم بھی ایک جیسی ہے۔ دوپہر کا کھانا سکول فراہم کرتا ہے۔ سکول جانے کی عمر کا کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں ملے گا۔ تعلیم یونیورسٹی تک مفت ہے ( امریکہ میں لوگوں کو صحت کی بیمہ پالیسی خریدنی پڑتی ہے اور برطانیہ میں یونیورسٹی کے طلبہ بھاری فیسیں دیتے ہیں )۔

کیوبا نے جنوبی امریکہ کے ممالک کے بیس لاکھ مریضوں کے آ پریشن بلا معاوضہ کئے۔ 2007 میں جب آزاد کشمیر میں ہولناک زلزلے نے تباہی مچائی تو پاکستان سے سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود کیوبا نے زخمیوں اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے اپنے ڈاکٹر بھیجے۔ پھر پاکستان کے طلبہ کو کیوبا میں میڈیسن کی تعلیم، بغیر فیس لئے، حاصل کرنے کی پیشکش کی۔ اس سہولت سے چھ سو طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔ جب افریقہ میں ایبولا کی وبا پھیلی تو کیوبا کے ڈاکٹر بے خوف و خطر وہاں پہنچے۔ ایک ڈاکٹر کو خود یہ مرض لاحق ہو گیا تو اس نے علاج کے لئے کیوبا ہی کا انتخاب کیا اور صحت یاب ہو جانے پر واپس افریقہ جانے پہ اصرار کیا، یہ کہہ کر کہ اس کے مریض اس کا انتظار کر رہے تھے۔

موسم گرم اور خوشگوار رہا۔ بارش صرف پہلے دن ہوئی۔ اس کے بعد دن بھردھوپ چمکتی اور درجہ حرارت تیس درجے سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا۔ جی ہاں، برطانیہ میں رہنے والوں کے لئے خوشگوار موسم ایسا ہی ہوتا ہے: ہوتے ہیں عموماً یہ مری دھوپ کے دشمن/بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک۔ کبھی کبھار اکا دکا بادل منڈلاتے۔ ہم اپنے ساتھ کوٹ یا جیکٹ وغیرہ رکھتے کیونکہ کوچ میں اور بعض اجلاسوں میں ائر کنڈیشنر چلتے تھے۔ میرے کوٹ اٹھائے پھرنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس میں فون، بٹوا، پاسپورٹ، کمرے کی چابی اور رومال وغیرہ، سہولت سے رکھے جاتے۔

اپنے سات دن کے قیام کے دوران میں صرف ایک بار ہوانامیں اور ایک بار پینار ڈیل ری او (Pinar del Rio) میں پولیس اہلکار دیکھنے کاتفاق ہوا۔ دونوں باروہ بڑی سڑک سے ملحق گلی میں اپنی جیپ کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ دونوں شہروں میں ہم چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں رات کو دیر تک بے خوف و خطر گھومتے۔ ہمیں کوئی تنبیہ بھی نہیں کی گئی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ لوگ عام طور پہ گھروں کو مقفل نہیں کرتے۔ مجھے یاد آیا کہ ایک زمانہ تھا کہ لاہور میں ہمارا گھر بھی دن بھر کھلا رہتا تھا۔ بیرونی دروازے کے بعد آنگن، پھر برآمدہ، چھوٹی سی ڈیوڑھی، والدہ کا کمرہ اور اس سے ملحق ڈرائنگ روم۔ میری والدہ ایک ہائی سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، چنانچہ ان سے ملنے شام تک خواتین، کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں، آتی رہتیں ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ والدہ کی ملنے والی کسی خاتون نے انہیں بتایا کہ وہ سارے گھر میں ”مسز کاظمی، مسز کاظمی “ پکارتی رہیں لیکن کوئی جواب نہ ملا۔

میرے متعدد دوستوں نے کیوبا سے سگار لانے کی فرمائش کر رکھی تھی۔ پاکستان میں نواب زادہ نصر اللہ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان سگاروں کی شہرت میں اضافہ کیا تھا۔ ہوانا کی دکانوں میں اتنی اقسام اور قیمتوں کے سگار تھے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کونسے والے خریدوں ۔ اپنے گائیڈ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ فکر نہ کرو، ہمیں پینار میں قیام کے دوران ایک وادی میں واقع قصبے وینالیز (Vinales) جانا ہے جہاں تم سگار بنتے ہوئے بھی دیکھو گے۔ وہیں سے خرید لینا۔ وینالیز ایک انتہائی خوبصورت جگہ ہے۔ قدرتی مناظر دیدنی ہیں ۔ ایک پہاڑی ایسی ہے جیسے کوئی ہاتھی بیٹھا ہو۔ اس کا نام ’سویا ہوا ہاتھی‘ (Sleeping Elephant) رکھا گیا ہے۔ انتہائی لذیذ کھانا ملا اور ہمارے سامنے نکالا گیا گنے کا رس۔ ایک شیڈ میں سگار بنانے کے ماہر نے سگار بننے کے مراحل بتائے اور سگار بنا کے دکھایا بھی۔ اس نے دس دس سگاروں کے پیکٹ بنا کے رکھے ہوئے تھے۔ پورے پیکٹ کی قیمت اتنی تھی جتنی شہر میں ایک سگار کی۔ ہماری موج ہو گئی۔

ہم نے ہوانا میں خواندگی میوزیم دیکھا اور پرائمری، سیکنڈری، میوزک اور ووکیشنل سکولوں اور ایک متاثرہ بینائی والے طلبہ کے سکول میں گئے۔ کیوبا کے مغربی شہر پینار ڈیل ری او میں پرائمری، سیکنڈری اور آرٹ سکولوں کے علاوہ وہاں کی یونیورسٹی میں جانے کا موقع بھی ملا۔ 1961 کی مذکورہ بالا خواندگی مہم کا احوال اور کیوبا اور برطانیہ کے سکولوں کا موازنہ ایک الگ مضمون میں بیان کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).