باتاں ہماری براتاں کی


ہمارے ایک بزرگ کی بیگم اچانک بغیر نوٹس دیے گزر گئی۔ بزرگ نے اپنے آدھی درجن بچوں کو دیکھا سوچا پھر شادی کی نیت باندھ لی۔ ان کے اپنے بچے تو ابھی جوان ہوتے پھر رہے تھے۔ البتہ ان کے بھتیجے بھانجے خود شادی شدہ تھے۔ سندھ پنجاب پشاور کے کزنوں کا اکٹھ ہوا۔

سندھ سے آئے کزنوں میں کچھ کچھ وڈیرا پن تھا۔ انہوں نے سوچا کہ اپنے بزرگ کی برات گج وج کے روانہ ہونی چاہیے۔ جب سب لوگ برات چڑھنے کے لیے بس میں سوار ہو رہے تھے ہم تین کزنوں کو فائرنگ کرنے کا خیال آ گیا۔ برات کے کھڑے کھڑے پنج ست فائر ہو جائیں یہ سوچ کر ہم تینوں بھاگے بھاگے گھر پہنچے۔ رائفلیں نکال کر واپس بھاگے جا رہے تھے۔

ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے او کھڑے ہو جاؤ تمھاری۔ جانگلیوں اور بلوچوں کا پنڈ ہے انہیں کسی مسلح تصادم کی مہک آ گئی۔ ظالموں نے ہمیں گھیر لیا کہ نہ ہمارے پنڈ میں ہم نے قتل نہیں ہونے دینے۔ او دفع ہو فائر کرن دے کہا ہمارے سندھی کزن نے تو جانگلیوں بلوچوں نے اچھی طرح گھسن مار مار کر سمجھایا کہ لڑائی اچھی بات نہیں۔ گھر والوں نے آ کر چھڑا لیا پھر دو چار فائر بھی کر لیے انہوں نے خود ہی۔ ہم تینوں حیران کے یہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔ ہمیں مار پڑی ہے ہم تو پٹاکے چلا کر دل خوش کرنے لگے تھے۔

ہم جب برات لے کر اپنی بزرگ دلہن کو لینے پہنچے تو بھانڈ آ گئے۔ ہمارے سوجے منہ دیکھ کر اور ہمارا دلہا دیکھ کر انہوں نے ایسی ایسی جگت ماری کہ سماں باندھ دیا۔

سینتالیس میں ہوئے دنگوں میں ہمارا ایک بزرگ اپنے دوستوں کے خاندان کو لانے موجودہ بھارت میں کہیں گیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے شاید سندھ کے واحد ریلوے افسر ٹکٹ چیکر سے سیٹنگ کی تھی تفصیل نہیں معلوم۔ وہ اپنے دوست خاندان کو بخیریت ٹرین میں بغیر کرایہ خرچے پاکستان لے آیا۔ سندھی ریلوے افسر کہیں ساٹھ کی دہائی میں ہی گزر گیا۔ ہمارے بزرگ نے پھر ساری عمر ٹرین کا سفر کبھی ٹکٹ لے کر نہیں کیا۔ جتنی مرضی بزتی ہوئی آرام سے کرا لی ٹکٹ لینے کی زحمت نہیں کی۔ یہی بزرگ ایک برات سندھ سے لے کر آئے ظاہر ہے بغیر ٹکٹ۔ پھر دلہن کو بیاہ کر لے گئے، اب کیا بار بار بتاؤں کہ واپسی بھی بغیر ٹکٹ ہوئی۔ بس ہمیں دو تین کزنوں کو احتیاطاً ساتھ جانا پڑا فالتو ٹکٹ سمیت۔ لڑکی والوں کا بھی حال کوئی نہیں ہوتا۔

ایک بار پشاور سے سندھ گیا۔ وہاں سے برات کے ساتھ واپس ساہیوال آیا۔ ٹرین کے لمبے سفر میں ایک براتی رات کو سوتے میں گرم ہو گیا۔ ایک عجیب پشوری سا کیس بن گیا پتہ نہیں کس طرح وہ مسئلہ ہم لوگوں نے جھوٹ کے آسرے حل کیا اور شادی برات دونوں بچائیں۔ پشاور کا ذکر آیا ہے تو اپنے دوستوں کی شادیوں براتوں کا ذکر تو بالکل نہیں کرنا کہ وہاں آنا جانا بھی ہوتا کچھ دنوں بعد۔ پشاور کی کہانی بس ایک اتنی ہی سنیں کہ ایک عزیز ہیں ان کے بیٹے نے اطلاع دی کہ ابا جی اپنی شادی کرانے پشاور آئے تھے۔ انہیں کوئی چک کر لے گیا ہے اب چھڑائیں کسی طرح۔ چھڑا تو لیے گئے تھے کسی بھی کروٹ لیٹنے میں بہت تکلیف محسوس کرتے تھے کئی مہینے پھر بھی ہمارے وہ عزیز۔

ہر شادی پر ہم کچھ کزن مختلف شہروں صوبوں سے اکٹھا ہوا کرتے تھے۔ ہمارا ایک گینگ سا بن گیا تھا خاندان کی ساری شادیوں کی خبر رہتی تھی۔ ان افئرز کا بھی پتہ ہوتا تھا جن کا شادی میں ڈھل جانے کا امکان ہوتا تھا۔ شادی سے یاد آیا ایک بار اسی گینگ کے ایک رکن کو ایک دلہن نے گھونگٹ اٹھا کر بولا تھا بڑے پیار سے اوئے کنجرا اچھے رہے ہو دیکھ میری شادی ہو گئی۔ بڑی منتیں کرنی پڑی تھیں دلہن کی کہ بی بی اب کسی طرح یہ شادی کامیاب کر دے جو ہونے لگی ہے۔ اگلے جنم میں اس منحوس کزن سے مل لینا۔ منتیں کرنے میں ظاہر ہے آپ کا فاضل لکھاری بھی تھا دلہا کا بھائی بھی تھا اور وہ کنجر بھی تھا جو بعد میں قسمیں کھاتا رہا کہ افئر چھوڑو میں نے تو سلام بھی کوئی چار ہی بار لیا تھا۔

خیر قصہ اس برات کا سنانا ہے جس میں خوش قسمتی سے شرکت سے محروم رہا۔ دلہا کی ایک زوردار فلمی کہانی تھی۔ اک ظالم سا عشق کیا تھا اس نے خود بھی ہیرو سا تھا پسند بھی اسے ویسی سی حسینہ آئی تھی۔ دونوں تھے بھی کزن ان کی شادی میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی بظاہر۔ پر وہ حسینہ اس سے شادی تو چھوڑیں انسانوں کی طرح بات بھی نہ کرتی تھی۔ بہت منتیں کر کے دوستوں کزنوں گھر والوں نے دلہا کو راضی کر لیا۔ یہی کہا کہ ابے ڈھکن جب لڑکی ہی راضی نہیں تو تم شادی کر لو۔ ہیرو جب دلہا بن کر تیار ہوا بس پر چڑھنے لگا تو اس کی ہیروئین نے اس کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ گھر والوں نے پوچھا بھی کہ کیا ہوا پیاز زیادہ کاٹ لیے ہیں تو اگلی نے صاف بول دیا کہ نہیں اس کی شادی ہو رہی مجھے رونا آ رہا۔

ہیرو بگڑ گیا شادی سے انکاری ہو گیا کہ نہیں جاتا اسی سے کرنی ہے شادی۔ اب کوئی فلم تو ہے نہیں کہ ہیپی اینڈنگ کا سوچ رہے ہیں آپ۔ جانگلیوں کا پنڈ تھا دلہا کے انکار کو اقرار میں بدلنے میں جب ناکامی ہوئی تو اس کی دل لگا کر کٹ لگائی گئی۔ اسے بس میں پھر چڑھایا گیا ڈنڈا ڈولی کر کے، تو وہ چاروں ہاتھ پیر پھیلا کر دروازے سے بھی چپک گیا۔ پھر کٹ کٹ کر اسے اندر پھینکا گیا۔ اس شیر بچے نے اپنے گھر والوں کی خاص طور پر اپنے ابا جی کی اپنے پنڈ والوں کی اپنے دوستوں کی جانگلیوں کی خوب گا گا کر ٹوں ٹوں کی سارے راستے۔ پھٹے کپڑوں میں پوری طرح پھنٹر دلہا لے کر جب برات پہنچی تو ہمارا ہیرو شادی پر تب راضی ہوا جب انتظار میں بیٹھی دلہن نے آ کر بولا کہ ویرے میرا کی قصور تم مرنا کر لینا دوسرا ویاہ اسی سے۔

اس کے بعد کا قصہ صرف ان ڈاکٹروں کے سننے کا ہے جو امریکہ کینیڈا اور یو کے میں رہتے ہیں۔ ہم سب پر لکھتے ہیں اور ہمیں نفسیات اینڈوکرونالوجی پر لکھ لکھ کر سمجھاتے رہتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi