یہ چوڑیاں مرد کیوں بناتے اور بیچتے ہیں


آپ نے کتنی خواتین جیولرز دیکھی ہوں گی؟ میں نے تو آج تک مرد سنار وں کو ہی ٹیکہ، نتھ، کڑا، گلو بند، پازیب بناتے دیکھا۔ کانچ کی چوڑیاں پہنتی عورتیں ہیں مگربیچتے مرد ہیں۔ برقعے عربی ہوں کہ شٹل کاک کہ ٹو پیس، سیاہ ہوں کہ سفید یا نیلے۔ پہنتی خواتین ہیں مگر سیتے مرد ہیں۔ خواتین کا ہارسنگھار مرد بیچتے اور سراہتے ہیں۔ خواتین کے جوتے اور چپلیں مرد بناتے ہیں۔ فیشن ڈیزائنر مرد ہیں۔ گھر کے چولہے کی ٹھنڈی چپاتی پر گرم طلاق ہوجاتی ہے لیکن دنیا کے ننانوے اعشاریہ نو فیصد شیف، باورچی اور نانبائی مرد ہیں۔

کون سا اشتہار ہے جس میں عورت نہ ہو لیکن پوری اشتہاری کمپین میں فوٹو گرافر اور کاپی رائٹر سے لے کر پینا فلیکس بنانے والے تک سب مرد نہ ہوں۔ عالمی مقابلہِ حسن میں خواتین ماڈل اور جج مرد۔ ہر ملک کی ایک عددِ خاتونِ اول ہوتی ہے۔ کبھی خاتون صدر یا وزیرِ اعظم سے ایک قدم پیچھے صاحب ِاول بھی دیکھا؟ مرد وہ ہاتھی جو مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا اور عورت وہ مٹھی جو بند ہے تو لاکھ کی کھل گئی تو خاک کی۔ ایسا ہی ہے نا؟

اچھا تو گھر کا سربراہ کون ہے؟ باپ، بیٹا، خاوند یا تینوں کی عدم موجودگی میں کوئی چچا یا ماموں؟ رشتہ کون طے کرتا ہے؟ لڑکی کی ماں یا باپ؟ نکاح کون پڑھاتا ہے؟ مرد یا عورت؟ گواہ کون ہوتا ہے مرد یا عورت؟ نکاح کے وقت لڑکی کی مرضی کون معلوم کرتا ہے؟ مرد یا عورت؟ رخصت کون ہوتا ہے؟ مرد یا عورت؟ جس قرآن کے سائے سائے رخصتی ہوتی ہے وہ کس کے ہاتھ میں ہوتا ہے؟ مسلمان مرد کے یا مسلمان عورت کے؟ کئی برادریوں میں جائیداد کے بٹوارے کو روکنے کے لیے عورت کی قرآن سے شادی کردی جاتی ہے؟ کبھی اس بابت حرام حلال کی بحث سنی؟

اچھا تو یہ کون بتائے گا کہ عائلی قوانین مجریہ انیس سو باسٹھ کے تحت جاری شدہ سرکاری نکاح نامہ ہر نکاح خواں کے لیے مباح ہونے کے باوجود وہ اس نکاح نامے کی شق نمبر اٹھارہ بنا کسی سے پوچھے خود بخود کیوں کاٹ دیتا ہے کہ جس میں لکھا گیا ہے کیا دولہا یہ حق دے گا کہ دلہن طلاق کا حق استعمال کر سکے؟ اگر یہ شق غیر شرعی ہے تو اب تک نکاح فارم میں کیوں ہے؟ کسی نے اب تک باقاعدہ چیلنج کیوں نہیں کیا۔ اور جب تک اس بارے میں کوئی سرکاری یا عدالتی فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک نکاح خواں اسے کس اختیار کے تحت اپنے بال پوائنٹ سے کاٹ سکتا ہے؟

جو عورت ایامِ حج میں طوافِ کعبہ میں برابری کے ساتھ حصہ لیتی ہے۔ مسجدِ نبوی میں نماز پڑھتی ہے۔ اسی عورت کو کبھی محلے کی مسجد میں کسی امام نے نماز ادا کرنے یا عورتوں کو مسجد میں نمازِ باجماعت کے اہتمام کی بخوشی یا ناخوشی اجازت دی؟ کیا ایسا کسی شرعی پابندی کے سبب ہے یا اس پابندی کے پیچھے کوئی سماجی رواجی رکاوٹ ہے؟ بالکل ایسے ہی جیسے ترکے کے بٹوارے کی بات آئے تو ماں اور بیٹیوں کے لیے ہم میں سے بہت سوں کو شریعت کے بجائے رواج یاد آنے لگتا ہے۔ تو پھر یوں کیوں ہے کہ شریعت سے متصادم سیکڑوں رواجات حرام قرار دیے گئے اور بعض حرام رواجات کو کھل کے حرام کیوں نہیں کہا جاتا یا سکتا؟

جرگے کے فیصلے میں دو خاندانوں، دو برادریوں اور دو قبائل کی دشمنی ختم کرانے کے لیے عورتوں کو ہی کیوں بطور ہرجانہ تبادلہ کرکے بیاہا جاتا ہے۔ لڑکا بطور ہرجانہ کیوں مانگا یا دیا نہیں جاتا؟ آخر سندھ میں بالخصوص زیادہ ترخوبرو ہندو لڑکیاں ہی کیوں کلمہ پڑھنا پسند کرتی ہیں۔ ہندو لڑکوں کو مسلمان ہونے میں اتنی دلچسپی کیوں نہیں؟ جتنی بدکار کاریاں قتل ہوتی ہیں اتنی ہی تعداد میں کیا بدکار کارے بھی مارے جاتے ہیں؟ کیا کاریوں کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے؟ کیا انھیں عمومی قبرستانوں میں ہی دفنایا جاتا ہے؟

شرع میں کیا شرم۔ چنانچہ اکثر علما یہ تو کھول کھول کے بتاتے ہیں کہ نیک آدمی کو جنت میں اجر کن کن شکلوں میں ملے گا۔ مگر یہ حسرت کب پوری ہوگی کہ کسی بھی جمعے کو کسی مولوی صاحب سے یہ بھی تفصیلاً سنوں کہ متقی اور پرہیز گار، باحیا و باعصمت و فرمانبردار عورت کے لیے جنت میں کن کن اعمال کے عوض کن کن اور کیسی کیسی نعمتوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بہت سے علما جہنمی خواتین و حضرات کو ملنے والی ممکنہ سزاؤں اور عذابوں کا کھول کھول کے بلا تکلف بیان کرتے ہیں۔

آپ میں سے کتنوں نے ”بھارت کی بیٹی“ کے نام سے بننے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم دیکھی ہے جسے مودی حکومت نے دیش کو بدنام کرنے کی سازش کہہ کے پابندی لگا دی۔ حالانکہ یہ فلم یو ٹیوب اور فیس بک پر آسانی سے دستیاب ہے۔

یہ فلم اس تئیس سالہ طالبہ کے بارے میں ہے جسے ڈیڑھ برس پہلے پرہجوم جاگتے دہلی میں رات آٹھ سے نو بجے کے درمیان چلتی بس میں چھ لڑکوں نے نہ صرف ریپ کیا بلکہ بہیمانہ تشدد کے بعد باہر پھینک دیا اور پھر وہ مرگئی۔ اس فلم میں ریپ کرنے والوں اور ان کے وکلا کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔
ایک ریپسٹ کہہ رہا ہے کہ اتنی رات کو یہ لڑکی ایک غیر لڑکے کے ساتھ کیوں گھوم رہی تھی ( اسے کیسے پتہ چلا کہ لڑکا غیر ہے)
وہی ریپسٹ کہہ رہا ہے کہ اگر وہ ریپ کے دوران مزاحمت نہ کرتی تو ماری نہ جاتی۔ اس وقت اسے خاموش رہنا چاہیے تھا۔ ہم اسے بس سے اتار دیتے بات وہیں ختم ہوجاتی۔

اس ریپسٹ کا وکیل کہہ رہا ہے کہ عورتیں بنا مطلب گھر سے نکلیں گی توریپ تو ہوں گی۔ عورت وہ پھول ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔ یہ پھول گھر میں کھلے گا تو اس کی عزت ہوگی۔ ایسے ہی کہیں گرا پڑا ملے گا تو کوئی بھی جانور منہ مار سکتا ہے۔ اس میں بھلا جانور کا کیا قصور۔ مجھے اگر پتہ چل جائے کہ میری بیٹی کسی غیر لڑکے کے ساتھ گھوم رہی ہے تو میں تو اس پر مٹی کا تیل چھڑک کے آگ لگادوں گا۔ یہی ہماری تہذیب اور پرمپرا ( رواج ) ہے اور یہی رواج ہماری عورتوں کی رکھشا کر سکتا ہے۔

یہ فلم دیکھتے دیکھتے میرے کانوں میں پرویز مشرف کے الفاظ گونجنے لگے کہ عورتیں اس لیے ریپ کرواتی ہیں تاکہ کینیڈا وغیرہ کا ویزا آسانی سے مل جائے۔ اور پھر محترم منور حسن کی بات یاد آگئی کہ اگر کسی عورت کے ساتھ ایسا ہوجائے اور وہ چار گواہ مہیا نہ کرسکے تو پھر اسے خاندان کی عزت کی خاطر چپ رہنا چاہیے۔

میں اب تک انتظار کررہا ہوں کہ ’’وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ“ والے اقبال اور ’’اے ماؤ بہنو بیٹیوں دنیا کی عزت تم سے ہے“ والے الطاف حسین حالی کے کسی قدر دان عالم کی زبان سے یہ سوال سن سکوں کہ داعش والے یزیدی فرقے کی عورتوں کو بطور لونڈی کیوں منڈی لگا کے فروخت کررہے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو ان افعال کی فی زمانہ شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور پھر مفتوحہ علاقوں میں ایسے گروہوں کی دیگر زیادتیوں کی بابت خود فقیہانِ کرام کیا کہتے ہیں۔ کیا یہ سب فتنے اور فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے یا واقعی یہی وہ صالحین ہیں جو خالص شریعت کے اصل داعی اور محافظ ہیں؟ کوئی سرکردہ پاکستانی عالمِ دین غیر مبہم انداز میں اس کنفیوژن کو دور کرے گا یا دوربین صرف مغرب کی تہذیبی زناکاریوں پر ہی مرکوز رہے گی؟ مجھ سے آپ سے اچھے تو لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز ہیں۔ کم ازکم لگی لپٹی تو نہیں رکھتے۔

ہاں کابل کی بے باک عورتوں نے فرخندہ کا جنازہ اٹھا کے غیر شرعی حرکت کی۔ مگر فرخندہ کی ہلاکت میں حصہ لینے سیکڑوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کوئی ایک عاقل بالغ گواہ جس نے دینیات کی استانی اور حافظہ فرخندہ کو قرآنِ پاک کا وہ نسخہ جلاتے دیکھا ہو کہ جس کے بعد اس کی سنگسار سوختہ لاش دریا برد کر دی گئی۔ وہ سوختہ قرآنِی نسخہ یا اس کا کوئی صفحہ کسی کے پاس تو ہو کہ جسے دیکھ کے مجھ جیسے متذبذبین کے دل میں بھی ٹھنڈک پڑے کہ اس جہنم زادی کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا۔ تو کیا اس پورے واقعے میں غیر شرعی حرکت صرف جنازہ اٹھانے والی خواتین کی ہی ہے؟ ہو سکتا ہے یہ خواتین دراصل اپنے ہی سماجی مرتبے کے جنازے کو کاندھا دے رہی ہوں؟ تو کون جان سکتا ہے دلوں کا حال ماسوائے خدا۔

نکیلے پتھر، جو وقت کے ساتھ میرے سینے میں اتنے گہرے اتر گئے ہیں
کہ میرے جیتے لہو سے سب آس پاس رنگین ہوگیا ہے
مگر میں صدیوں سے ان سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
اور ایک اونچی اڑان والے پرند کے ہاتھ تجھ کو پیغام بھیجتی ہوں

تو آ کے دیکھ تو کتنا خوش ہو
کہ سنگ ریزے تمام یاقوت بن گئے ہیں، دمک رہے ہیں
گلاب پتھر سے اگ رہا ہے
(فہمیدہ ریاض کی نظم پتھر کی زبان سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).