بلیک فرائیڈے یا وہائٹ فرائیڈے؟


دن اچھے ہوتے ہیں یا دن برے ہوتے ہیں۔ جب اچھے دن ہوتے ہیں تو انسان اپنے آپ میں مست ہوجاتا ہے اور ہر طرح کی عیاشی کرتا ہے لیکن اگر حالات ناسازگار ہوں اور برے دن گذارنا پڑیں تو انسان سب سے بد ظن ہوجاتا ہے اور ہر وقت برے دنوں کا رونا روتا ہے۔ کبھی بھول کر بھی اچھے دن یاد نہیں آتے۔ اب ایک نئی ریت چلی ہے کہ دن بھی رنگ گئے ہیں جی جیسے آجکل بلیک فرائیڈے یعنی کالا جمعہ اس کے جواب میں وہائٹ فرائیڈے یعنی سفید جمعہ کا ذکر چل نکلا ہے۔

ارے بھئی یہ جمعہ کالا ہوگیا اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا تو صاحبو ہم بتاتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے امریکہ میں کئی سال پہلے کاروبار کرنے والوں نے سوچا کہ اپنے عوام کے لیے کرسمس سے پہلے نومبر کے مہینے میں ایسی سیل لگائی جائے جس سے عوام خوش ہوجائیں اور ہر شے پر اپنا منافع بالکل نہ ہونے کے برابر رکھ کر اتنی زیادہ تعداد میں چیزیں بیچیں کہ کئی گنا زیادہ منافع جیب میں آئے۔ یہ سیل تقریباً نومبرکے پورے مہینے ہوتی ہے لیکن ایک مخصوص دن یعنی نومبر کے تیسرے جمعہ کو بلیک فرائیڈے کا نام دیا اس دن ساری رات اور دن بازار کھلے رہتے ہیں اور رعایتی سیل پر ہر چیز دستیاب ہوتی ہے۔ امریکہ میں یہ دن ملک گیر سطح پر منایا جاتا ہے تاکہ عوام کم سے کم نرخ پر کرسمس کی شاپنگ کر لیں۔ 1952 میں اس کی شروعات ہوئیں۔

بلیک فرائیڈے دراصل شاپنگ ڈے ہوتا ہے ریٹیلرز انتہائی سستے داموں پر اپنا مال نکالتے ہیں جس کی وجہ سے ہر شخص کرسمس کی شاپنگ دل بھر کے کر لیتا ہے۔ اس دن اکثر ادارے اپنے ملازمین کو چھٹی دے دیتے ہیں تاکہ آسانی سےشاپنگ کر سکیں۔ رات بھر شاپنگ سینٹرز کھلے رہتے ہیں۔ 2005 کے بعد سے بلیک فرائیڈے شاپنگ کے لحاظ سے مصروف دن ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے ہوا اس لیے امریکہ میں یہ زور شور سے منایا جاتا ہے، اس کے علاوہ کینڈا، یو کے، آئر لینڈ اور آ ہستہ آہستہ بہت سے ملکوں میں بلیک فرائیڈے منایا جانے لگا۔ یہ عام لوگوں کے لیے ایسا تہوار بن گیا ہے جہاں پیسے خرچ کرکے شاپنگ کرنے کا جشن منایا جاتا ہے اور کیوں نہ منایا جائے آخر کم پیسوں میں بہت سا سامان اور وہ بھی اچھی کوالٹی کا۔ 2008 میں ایم اندازے کے مطابق تقریباً 50.9 بلین ڈالرز عوام نے شاپنگ پر خرچ کیے۔

یہ تو ان ملکوں کی بات ہے جو اپنے عوام کو کرسمس کی خوشیاں دینا چاہتے ہیں کیونکہ کرسمس ان کاس تہوار ہے۔ اب ہمارے جیسے ملکوں میں بھی اس کی نقل میں بلیک فرائیڈے منایا جانے لگا ہے، لیکن یہاں کچھ لوگ مذہب کا چورن بیچ رہے ہیں کہ یہ جمعہ کو سیاہ کہہ رہے ہیں اس کی بے حرمتی ہے۔ بلا شبہ جمعہ مبارک دن ہوتا ہے اسے بلیک فرائیڈے نہ کہا جائے اور اس دن رعایتی سیل لگانے والوں کو برا بھلا کہا جارہا ہے اور باقاعدہ بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس کے جواب میں مڈل ایسٹ میں 22 سے 25 نومبر تک وہائٹ فرائیڈے منانے کا خیال آگیا تقریباً 80% آف سیل لگائی گئی ہے۔

چلیں بھئی جمعہ سیاہ سے سفید ہو گیا پر ہمارے جیسے ملک میں اس کا کیا اثر ہوگا جہاں غریب ایک وقت کی روٹی کوع ترستا ہے، اس کی صحت پہ کوئی اثر نہیں پڑے گا چاہے جمعہ سفید ہو یا سیاہ، اسے دو وقت کی پیٹ بھر کر روٹی مل جائے تو بہت ہے۔ وہ تو محنت کی چکی میں پستے پستے دنوں کا حساب بھی بھول جاتا ہے کہ کب پیر ہے کب جمعہ، اسدے تو دن رات یاد رہ جاتے ہیں جو گزر رہے ہوتے ہیں۔ آپ مسلمان بزنس مین ہیں تو آپ جانتے ہیں مسلمانوں کے تہوار رمضان، شوال، ذی الحج میں آتے ہیں تو آپ ان کی تقلید میں اپنے تہواروں پہلے ایسی لوٹ سیل کیوں نہیں لگاتے، کیوں نہیں گرین فرائیڈے یا سبز جمعہ مناتے کہ آپ کے ملکوں کے غریب مسلمان سکون سے روزے رکھ سکیں اور عید، بقرہ عید کے تہوار پر اچھے کپڑے پہن سکیں اپنے گھروں کے لیے سیل میں وہ چیزیں لے سکیں جو عام دنوں میں نہیں خرید سکتے۔

بلیک لفظ پہ اعتراض ہے لیکن ان کے مقاصد پر نظر نہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ کرسمس پر ان کے ملک کا ہر شہری خوشی مناسکے اور تہوارپر اپنی پسند کی چیزیں اور کپڑے لے سکیں۔ آپ کو براکہنا ہے کہیے لیکن اس سے فائدہ بھی نہ اٹھائیے۔

ہمارے ملک کے برانڈز بھی عید پر ایسی سیل لگا سکتے ہیں کہ عوام خوش ہوکر انھیں دعائیں دیں، وہ بھی اچھے کپڑے پہن سکیں، اچھا سامان خرید سکیں ۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے عام لوگوں کو اس قدر لوٹا جاتا ہے کہ بے چاروں کے چہروں سے خوشی معدوم ہوجاتی ہے اور فکر کی لکیریں گہری ہو جاتی ہیں۔ باپ سوچتا ہے بچوں کی عید ہوتی ہے وہی خوش ہولیں، بیوی شوہر کے لیے قربانی دیتی ہے اور شوہر بیوی کے لیے۔ کھانے پینے کی اشیاء رمضان سے پہلے ہی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی کو مہنگا بیچنے پر منع کرو تو کہتا ہے یہی مہینے تو کمانے کے ہیں۔ کاش ہم الفاظ کے معنی اوت مقاصد سمجھنے لگیں اور ہر چیز کو تنازعہ نہ بنائیں تو ہم بھی یہ چیز اپنا سکتے ہیں۔ مذہب کی بات کریں تو مذہب اسلام نے تو عام آدمیوں کوع بہت آسانیاں دی ہیں۔ اگر ہم زکواة کا نظام ہی ڈھنگ سے نافذ کر دیں تو کتنوں کا بھلا ہو گا اور مستحق افراد بھی تہوار کی خوشی محسوس کرسکتے ہیں۔ ایسا ہوگیا تو پھر ہمیں بلیک، وہائٹ فرائیڈے منانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).