اسلامسٹ، سوشلسٹ یا لبرل: کون سا نظام بہتر ثابت ہو رہا ہے؟


اسلامسٹ والے مولانا ہمیں بتاتے ہیں کہ ”اسلام صرف مذہبی عقائد کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں سیاسی، معاشرتی اور معاشی تمام شعبوں کا نظام موجود ہے“۔ سرخ والے کامریڈ حضرات ہمیں بتاتے ہیں کہ ”سوشلزم یا کمیونزم ہی اس دنیا کو انسانی مساوات دے کر غریبوں کی جنت بنا سکتے ہیں“۔ لبرل حضرات کا کہنا ہے کہ ”آزادی سب سے زیادہ اہم ہے۔ لبرلزم کی آزادی جس میں آزادی اظہار، فری مارکیٹ اور جمہوریت شامل ہیں، وہی انسانوں کے لئے بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں“۔ ایسے ہی دس مختلف سیاسی اور معاشی نظریات کے داعی اپنے اپنے نظام کو برتر ثابت کر رہے ہیں۔ اب ہم جیسے کم علم کنفیوز بیٹھے ہیں کہ ان میں سے کون سا نظام پاکستان کو ترقی دے سکتا ہے۔

آخر تھک ہار کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ بجائے علمی بحثوں میں پڑنے کے یہ دیکھ لیا جائے کہ لوگوں کو موقع دیا جائے تو وہ کس نظام میں جا کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نظریات تو کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان پر عمل دیکھ کر ان کے بارے میں پتہ چلے گا کہ کون سا سیاسی نظام عملی صورت میں بہتر ہے۔ کتابی طور پر تو ہر نظریہ ہی زمین پر جنت بنا کر دکھا دیتا ہے، لیکن جب خطا کے پتلے انسان ان کتابی باتوں کو عملی شکل میں لانا شروع کرتے ہیں تو غضب ڈھا دیتے ہیں۔ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔

اس لئے دنیا میں رائج کسی نظام کی برتری یا کمتری کے بارے میں کتابی بحثیں کرنے سے بہت بہتر ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ جس ملک میں وہ نظام رائج ہے، کتنے لوگ ادھر جانا چاہتے ہیں اور کتنے اس سے دور بھاگتے ہیں۔

اس وقت دنیا کی سرحدیں کھول دی جائیں اور ویزے کی پابندی ختم ہو جائے تو کتنے لوگ داعش یا طالبان کی امارت میں جائیں گے، کتنے شمالی کوریا یا کیوبا میں اور کتنے لبرل نظام والے مغربی یا ملائشیا اور دبئی جیسے ممالک میں؟ شاید یہ دیکھ کر بھی اندازہ ہو کہ کن ممالک کے سفارت خانوں کے آگے ویزا لینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں؟

کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کی جنت سوویت یونین اور طفیلی ریاستوں میں باقی دنیا کے لوگ جا کر رہنے کے شوقین نہیں تھے بلکہ وہاں سے بھاگنے والوں کو روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کیے جاتے تھے۔ ان ریاستوں کو اپنی شہریوں کو آہنی پردے کے پیچھے چھپا کر رکھنا پڑتا تھا کہ کہیں وہ دیوار برلن پھاند کر ظالمانہ فری مارکیٹ میں نہ پہنچ جائیں۔ اور جیسے ہی ان ملکوں کے عوام کو موقع ملا، انہوں نے اس نظام سے جان چھڑا لی۔ یعنی ادھر کچھ بڑی گڑبڑ تھی۔

اسلامسٹوں اور سلفیوں کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے طالبان اور داعش نے دو اسلامی سلطنتیں بنا ڈالیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ نہ تو امارت اسلامیہ افغانستان اور نہ ہی داعش میں ایسی فلاحی مملکتیں بنیں کہ پاکستانی ادھر جانے کو بے تاب ہوئے۔ بلکہ الٹا افغانی پاکستانی کے مہاجر کیمپوں میں برے حالوں رہنے کو افغانستان میں رہنے پر ترجیح دیتے تھے۔ افغانستان کی اس مفروضہ جنت میں کچھ تو غلط ہو گا جو یہ افغان مہاجرین ایسا کرتے تھے۔ ایسا ہی اس وقت دیکھنے میں آیا جب داعش نے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کیا۔ بجائے اس بات کے کہ ارد گرد کے ممالک کے مسلمان اس نظام کو دیکھ کر اس سے متاثر ہوتے اور ادھر جانے لگتے، ہم نے دیکھا کہ کروڑوں شامی اور عراقی داعش کے علاقوں سے بھاگے۔ کچھ تو غلط ہو گا داعش اور طالبان کے سخت گیر اسلامسٹ نظام میں۔

جبکہ اسلام کا ایک نرم سا ورژن ہم ملائشیا میں بھی دیکھتے ہیں۔ وہ شدت پسند نہیں ہیں۔ لوگ ادھر جانا پسند کرتے ہیں اور ملائشیا والے ویزے کی سختی کرتے ہیں۔ دبئی کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن ان دونوں ممالک کا معاشی اور معاشرتی نظام لبرل اصولوں پر مبنی ہے جس کے نتیجے میں ادھر برداشت اور معاشی خوشحالی آتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سے گورے آ آ کر ادھر سیٹل ہوتے ہیں۔

یہی لبرل ازم ہمیں مغربی یورپ اور امریکہ میں دکھائی دیتا ہے۔ لوگ جوق در جوق ادھر جانے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ سو جھوٹ بول کر اور ایجنٹوں کو پیسے دے کر جانوروں کی طرح کنٹینروں میں بند ہو کر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کرتے ہوئے ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔

کتابی باتیں ایک طرف مگر یہی ایک چیز بتا دیتی ہے کہ آج فانی انسانوں کی دنیا میں کس نظام نے انسان کو راحت اور خوشحالی دی ہے اور وہ نظام اپنی سو خامیوں کے باوجود سب سے زیادہ بہتر انداز میں رائج کرنا ممکن ہے اور انسانوں کی بڑی تعداد کو خوش رکھتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ممالک لبرل ازم سے نفرت کرتے ہیں وہی معاشی بدحالی اور وطن سے ہجرت کرنے والے شہریوں کی تعداد میں سرفہرست ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar