رانی پدماوتی پر فلم اور بھارت میں ریپ کے واقعات


بھارت میں پدماوتی کو لے کر احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔
پدماوتی کون ہے؟ کیا کوئی ایسی خاتون جس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے؟ یا ایسی کوئی سیاستدان جس پر کرپشن کے الزامات ہیں یا پھر کسی طوفان کا نام پدما وتی ہے؟

پدماوتی ایک فلم ہے جس نے ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے بھارت میں تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ پدماوتی کہانی ہے ایک ہندو رانی کی جس نے ایک مسلمان بادشاہ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک کر اپنی بقا کی جنگ لڑی تھی۔ یہ تیرہویں صدی کا قصہ ہے۔ دلی کا بادشاہ علاؤ الدین خلجی جسے ایک خوفناک حاکم کے روپ میں دکھایا گیا ہے جو صرف ظلم اور بربریت کرنا جانتا تھا، چھیننا جانتا تھا۔

بھارت میں اس فلم کو لے کر کئی اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں، ایک اعتراض یہ ہے کہ فلم میں ایک ہندو رانی کا مسلم بادشاہ سے معاشقہ دکھایا گیا، فلم میں مسلمان بادشاہ کی فتوحات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس وجہ سے ہندو دھرم رکھنے والوں کی دل آزاری ہوئی ہے، ایک اعتراض راجپوتوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کا بھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ فلم کو دیکھے بغیر کوئی اپنی رائے کیسے قائم کر سکتا ہے؟ کیسے احتجاج کر سکتا ہے؟ فلم کی ریلیز رکوانے کے لئے کیسے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا سکتا ہے؟ یہی نہیں ہندو انتہا پسند جماعتوں کی جانب سے توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ فلم ساز سنجھے لیلا بھنسالی کے سر کی قیمت دس کروڑ لگادی گئی، اداکارہ دیپیکا پڈوکون کی ناک کاٹنے اور رنویر سنگھ کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلم کی ریلیز رکوادی گئی فلم اب پہلی دسمبر کو نہیں بلکہ کسی اور تاریخ کو ریلیز کی جائے گی۔

تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندو رانی پدماوتی کا سرے سے کوئی وجود نہیں، فلم کا مرکزی خیال تو سولہویں صدی میں لکھی گئی ایک افسانوی رانی کے بارے میں نظم سے لیا گیا جو ایک بادشاہ کے قدموں میں گرنے کے بجائے خود سوزی کرلیتی ہے۔

تو کیا بھارتی ایک خیالی کردار کو لے کر مرنے مارنے پر تل گئے ہیں؟ ایک خیالی ہندو رانی کی عزت کے لئے لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کے درپے ہیں؟

یہ معاملہ انٹرٹینمنٹ سے نکل کر سیاسی ایوانوں تک پہنچ گیا ہے۔ بی جے پی لیڈر سبرمنیم سوامی کہتے ہیں کہ یہ سب مسلمانوں کی جانب سے ایک بین الاقوامی سازش ہے۔ انہوں نے تو یہ بھی بتا دیا کہ فلم پر لگایا گیا پیسہ دبئی سے آرہا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں بھارت میں ہر پندرہ منٹ میں ایک خاتون کا ریپ کیا جاتا ہے، بھارتی دارلحکومت دلی ریپ کیپیٹل کے نام سے مشہور ہے۔ دلی میں روزانہ تین بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔

16دسمبر 2012کو چلتی بس کے اندر نربھیا نامی ایک طالبہ کا گینگ ریپ کیا گیا وہ کئی روز اسپتال میں زیر علاج رہی لیکن پھر دم توڑ گئی، اس کی موت کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے، لیکن بھارت میں بڑھتے ریپ کے واقعات میں کوئی کمی نہ آئی۔
بھارتی نیشنل کرائم بیورو کے ریکارڈ کے مطابق 2015میں 11ہزار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

صرف گزشتہ برس کی بات کریں تو یکم ستمبر 2016 میں ہریانہ کے گاؤں میں دو مسلمان خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ 9 ستمبر 2016 کو گجرات میں ایک ڈاکٹر نے ڈینگی سے متاثرہ مریضہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ 25 مئی 2017 کو دلی کے قریب مسلح افراد نے گاڑی سے سفر کرنے والے ایک خاندان کی چار خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بنا کر ان کے خاندان کے ایک فرد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ابھی گزشتہ ماہ ہی خبر آئی تھی کہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں شراب کے نشے میں دھت شخص کی جانب سے 100 سالہ معمر خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد وہ انتقال کر گئیں۔

18نومبر کو بھارتی شہر بھوپال سے دس سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کی خبر آئی جہاں تین مرد تین ماہ تک ایک دس سالہ لڑکی کو مبینہ جنسی زیادتیوں کا نشانہ بناتے رہے۔ بھارتی ریاست چندی گڑھ میں ایک دس سالہ بچی نے ایک بچی کو جنم دیا۔ جی ہاں اس بچی کو اس کے دونوں ماموں 7 ماہ تک جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے رہے۔ 3نومبر 2016کو نئی دلی میں ایک شخص نے ایک 18 ماہ کی بچی کو اپنے ہی بچوں کے سامنے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ وہ بچی پروسیوں کے گھر سے کھیلنے آئی تھی۔ بعد میں اسے لہو لہان کر کے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا۔ اس شخص کی بیوی چھت پر کپڑے دھو رہی تھی جب یہ واقعہ ہوا۔

یہ اور ان جیسے بہت سارے واقعات جن کی فہرست بہت طویل ہے لیکن سد باب کوئی نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں نہ 18 ماہ کی بچی محفوظ ہے نہ 100سال کی معمر خاتون۔

لیکن بھارتی اس سے قطع نظر ایک خیالی کردار کی عزت کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ کیا ان کی نظر میں جیتی جاگتی بھارتی ناری کی عزت کچھ بھی نہیں؟ یا یہ سب جانتے بوجھتے انجان بن رہے ہیں؟ کیا پے درپے ریپ کی خبروں کی گونج بھارتی ایوانوں تک نہ پہنچتی ہوں گی؟ مگر حکمراں جماعت بی جے پی اب تک کوئی قانون لانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ بھارت میں جہاں خواتین کی عزت کا یہ حال ہو وہاں ایک تخیلاتی کردار کے لئے اتنی ہا ہا کار مچانا ایک سوالیہ نشان ہے!

یا پھر یو کہہ لیجیے کہ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).