فضاؤں کی سہیلی، وہ بے خوف سی لڑکی


”کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ میں نے اپنی بیٹی کو اتنا فولادی کیوں بنایا اسے بھی عام لڑکیوں کی طرح سجنا سنورنا چائیے تھا وہ بھی بنتی سنورتی تتلیوں کی مانند اڑتی پھرتی لیکن پھر مجھے خود ہی یہ جواب ملتا ہے کہ اپنے لئے جیا تو کیا جیا؟“ یہ الفاظ پاکستان کی پہلی شہید فائٹر پائلٹ مریم مختیار کی والدہ کے ہیں۔

بائیس سالہ پائلٹ آفیسر مریم مختیار کی دوسری برسی پر میں ان کے گھر پہنچی تو ان کے والدین کو اپنا منتظر پایا۔ مسز ریحانہ مختیار آگے بڑھ کر گلے ملیں اور پھر ہم نے مریم سے متعلق ڈھیروں باتیں کیں۔ میں جس مریم کے گھر گئی تھی وہ ایک نڈر، حوصلہ مند، بہادر ہوا باز تھی لیکن وہاں جاکر معلوم ہوا کہ ایسی نظر آنے والی مریم اس سے کہیں مختلف ہے جس سے میری ملاقات اس گھر میں ہوئی۔ گھر میں سناٹا تھا مختیار صاحب کی بڑی صاحبزادی ڈینٹل سرجری کے لئے آسٹریلیا میں مقیم ہیں جبکہ چھوٹا بیٹا لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اب ان دونوں میاں بیوی کے پاس مریم ہی رہتی ہے۔ کیونکہ اس گھر کی ہر دیوار پر مریم کی بچپن سے جوانی تک کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔

مریم کے کمرے میں اس کے پلنگ پر رکھے اس کے من پسند ٹیڈی بیئرز آج بھی اس کے منتظر سے لگتے ہیں جبکہ گھر کے ایک بڑے کمرے کو اب اسٹڈی روم بنادیا گیا ہے جہاں کی مرکزی دیوار پر مریم کی بے شمار تصاویر، ایک کونے میں ائیر چیف سہیل امان کی جانب سے تحفتاً دیا جانے والا مریم کا فلائنگ ہیلمٹ اس کے جسد خاکی پر لپٹا سبز ہلالی پرچم پر رکھے اس کے یونیفارم میں ملبوس مسکراتی ہوئی تصویر اس کے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ ایک شیلف میں اس کی شہادت کے بعد دیا جانے والا تمغہ بسالت بھی موجود ہے۔ اور کئی ایسی نٹ کھٹ شرارتی تصاویر جو یہ بتاتی ہے کہ سنجیدہ نظر آنے والی لیکن پر خطر شعبہ اختیار کرنے والی یہ لڑکی عام طور پر اتنی شرارتی تھی کہ گھر والے تیار رہتے تھے کہ اب مریم کیا کرے گی۔

مریم کے والد کرنل ریٹائرڈ مختیار نے بتایا کہ والدہ ہمیشہ سخت رہیں تو مریم کی دوستی مجھ سے ہوگئی۔ وہ اپنی ہر بات مجھے بتاتی تھی جیسے کسی دوست کو بتاتے ہیں۔ جب اس نے فائٹر پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا تو میں نے بخوشی اجازت دی لیکن وہ فائٹر کنورجن کورس سے اگلے مرحلے میں جانے لگی تو میں نے اسے کہا کہ اب تم سی ون تھرٹی پر آجاؤ کیونکہ آنے والے دنوں میں تمہاری شادی اور بڑھنے والی ذمہ داریاں تمہیں فائٹر پائلٹ زیادہ عرصہ نہیں رہنے دے گی۔ لیکن اس نے کہا کہ نہیں یہ میرا شوق ہے لگن ہے میں اسی میں خوش ہوں۔ ان مراحل پر اس نے کریش کی صورت میں کئی ساتھیوں کو بچھڑتے دیکھا، مجھ سے تذکرہ بھی کیا اور ایک دن بڑی محبت سے مجھے کہا کہ بابا جب کریش ہوتا ہے ناں تو یا تو کوئلہ ملتا ہے یا راکھ۔ یہ سن کر میں پہلی بار کمزور پڑا تھا لیکن پھر خود کو سنبھالا اور ظاہر کیا کہ یہ سن کر میں جذباتی نہیں ہوا ہوں۔

مریم کو گھر میں پیار سے‘ میری‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا کرنل مختیار نے پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے بچپن میں ایک نظم پڑھ رکھی تھی جس کے الفاظ تھے O Marry Go and call the cattle home یہ ایک اداس نظم تھی جس کے اختتام پر لڑکی طوفانی بارش کی زد میں آکر مر جاتی ہے اور جب طوفان تھمتا ہے اور سب اسے ڈھونڈتے ہیں تو اس کے بال وہاں ملتے ہیں۔ شہادت سے کچھ روز قبل مریم نے اپنے والد کو فون کیا اور ہنستے ہوئے کہا بابا آپ جس نظم کی پہلی لائن مجھے گنگنا کر سناتے تھے وہ پوری نظم میں نے ڈھونڈ لی ہے ارے اس کا اختتام تو بہت اداسی پر مبنی ہے حیرت ہے اس ”میری“ کے نام سے آپ مجھے پکارتے ہیں۔ جس پر مختیار صاحب نے جواب دیا کہ میں چونکا کہ مجھے تو یہ پوری نظم یاد ہی نہیں بس ایک لائن یاد تھی جو میں اسے سنا سنا کر بچپن میں چھیڑا کرتا تھا۔

مریم کی والدہ نے مریم کی اسکول سے لے کر اکیڈمی اور فلائنگ تک کی ہر تصویر، ہر اعزاز سنبھال کر رکھا ہے انھوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میری بیٹی ہمیں ہنسانے اور چونکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔ ہم جب ملیر کینٹ شفٹ ہوئے اور یہ چھٹی پر گھر آنے لگی تو میں نے اسے کہا کہ اندر آتے ہوئے والد کا نام لے لینا تو فون پر قہقہہ سے بھرپور جواب آیا کہ ارے رہنے دیں کرنل صاحب ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اب تو ہم خود آفیسر ہیں اپنا کارڈ دکھا کر سلیوٹ لے کر اندر آجائیں گے۔ ان کی والدہ نے بتایا کہ مریم کی شہادت سے قبل ان کی بڑی بیٹی اور بیٹے نے خواب میں مریم کو ایجیکٹ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے ہی خیالات ان کو بھی آئے جیسے پہلے سے کسی بری خبر کے لئے وہ ذہنی طو ر پر تیار ہورہی ہوں۔ لیکن مریم کی شرارتیں اور باتیں ان کا دھیان ہٹادیتا تھا۔ وہ جب بھی گھر آتی تو بھائی کے ساتھ ملکر کھانے آرڈر کرتی چاکلیٹس منگواتی۔ اسٹائلش سیلفیز لیتی دوستوں کو بھیجتی۔ دوران ٹریننگ آنے والی سختیوں کو ہنس ہنس کر بتاتی۔ ایک بار کوئی بحث چھڑی تو مریم کی والدہ نے کہا کہ فائٹر پائلٹ بن رہی ہو تو کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دو جو ایم ایم عالم کی یاد تازہ کردے۔ مریم نے ہنستے ہوئے کہا واہ امی آپ بھی کمال ہیں ایم ایم عالم سے کم بات نہیں کرتیں آپ! اب کہاں جنگیں ہوتی ہیں لیکن فکر نہ کریں میں شاہین ہوں کوئی نہ کو ئی کارنامہ سرانجام دے ہی دوں گی ویسے بھی میں ایم ایم تو ہوں ہی یعنی مریم مختیار۔

24 نومبر 2015 کو معمول کے مشن پر جب مریم اسکورڈن لیڈر ثاقب عباسی کے ہمراہ ایف ٹی سیون پی جی سے فضا میں بلند ہوئیں تو تھوڑی دیر کے بعد جہاز میں فنی خرابی کا سامنا کرنا پڑا کچھ لمحے بعد صورتحال واضع ہوئی کہ جہاز کو باحفاظت لینڈ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا کنٹرول اب پائلٹس کے بس سے باہر تھا ایسے میں دونوں پائلٹس سے فیصلہ لیا کہ وہ آبادی کو بچاتے ہوئے ایجیکٹ کریں گے لیکن سامنے نظر آنے والی آبادی اور اسکول کو بچاتے ہوئے مریم نے چند سیکنڈز کی تاخیر سے ایجیکٹ کیا۔ اسکورڈن لیڈر ثاقب معجزاتی طور پر محفوظ رہے لیکن مریم نے اپنی جان کی قربانی دے ڈالی۔

مسز مختیار نے شہادت سے قبل رات کو مریم سے فون پر ہونے والی بات کا تذکرہ کیا کہ مریم نے کہا کہ ماما آپ ہمیشہ ٹوکتی ہے کہ بات کرنے سے قبل پوچھا کرو بے و قت فون نہ کیا کرو اب آپ کی بیٹی کو بھی رینک لگ چکا ہے اب آپ کو مریم سے بات کرنے سے پہلے وقت لینا پڑے گا اور پھر اس پر ہم خوب ہنسے۔ آج مریم سے بات کرنا بھی چاہوں تو وقت نہیں مل سکتا اب اس کی تصویریں ہیں اور چیزیں ہیں جن کی روز میں صفائی کرتی رہتی ہوں۔

دنیا میں بچے اپنے والدین کے نام سے جانے جاتے ہیں لیکن کرنل ریٹائرڈ مختیار کا کہنا ہے کہ میں وہ خوش قسمت باپ ہوں جو اپنی بیٹی کے نام سے پہنچانا جاتا ہوں اور اس فرق کو محسوس کرنا بہت فخر کی بات ہے۔ میں گئی مریم سے ملنے تھی لیکن تین گھنٹے کی ملاقات میں مجھے ”میری“ کو جاننے کا موقع میسر آیا۔ گھر تاخیر سے لوٹی تو امی کو مریم مختیار کے نام سے سجا پنج سورہ پیش کیا کہ اسے جب بھی پڑھیں تو دعا کیجئے گا۔ امی نے کہا وہ تو جس روز سے گئی ہے دعاوں میں شامل ہے۔

مجھے کرنل صاحب کے گھر میں شیلف میں رکھا کریش جہاز کا وہ ایک ٹکڑا یاد آیا جو کندیاں میانوالی سے کسی نے ایک ڈبے میں پھولوں اور دعائیہ خط کے ساتھ کرنل مختیار کو بھیجا تھا کہ یہ ہے وہ جہاز کا ٹکڑا جس میں آپ کی بیٹی سوار تھی اور اس نے ہماری زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی تھی۔ تمغہ بسالت کے ساتھ رکھا ہوا جہاز کا ٹکڑا ذہن میں آتے ہی مجھے انجم منہاس کی وہ بات یاد آئی کہ جب راشد منہاس کی شہادت کی خبر آئی تو میں گھر سے باہر نکل گیا، جہاں زندگی رواں دواں تھی۔ لوگ جلدی میں تھے، بچے ہنس کھیل رہے تھے، سڑکیں پر رونق تھیں تو میں نے سوچا کہ کیا انہیں معلوم ہے کہ میرا بھائی شہید ہوگیا کیا یہ کبھی جان پائیں گے کہ اس نے کیوں اپنی جان قربان کی؟ پھر اندر سے جواب آیا کہ یہ جو رونق اوربے فکر زندگی تم دیکھ رہے ہو ا سے قائم و دائم رکھنے کے لئے ہی تو کوئی اپنی جان سے گزرا ہے۔

مریم کے گھر سے لوٹنے کے بعد میں کئی گھنٹے سوچتی رہی کہ کبھی کبھی کئی زندگیاں خوشی سے جینے کے لئے کسی ایک کی قربانی مانگتی ہیں اور قربانی اسی کی ہوتی ہے جو خوشی سے اس سفر کا راہی بنتا ہے جس پر میرے اور آپ کے جیسے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ لوگ الگ ہی ہوتے ہیں ان کے گھر والے کچھ مختلف ہوتے ہیں جو خود اپنی اولادوں کو خوشی خوشی اس راستے پر روانہ کرتے ہیں جہاں شہادت کی منزل نہ جانے کب بانہیں کھول کر ان کا ماتھا چوم کر کہتی ہے۔ آو تمہارا ہی انتظار تھا۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar