بیس لاشیں کیا تقاضا کر رہی ہیں


گذشتہ دنوں بہتر گھنٹوں کے دوران بلوچستان کے ضلع تربت میں دو مختلف واقعات میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیس افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ بلوچستان کے ایک علیحدگی پسند دہشت گرد گروہ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مبینہ طور پر یہ نوجوان ایران اور ترکی کے راستے یورپ جا رہے تھے جبکہ ان میں سے اکثر کا تعلق گجرات، سیالکوٹ اور منڈی بہاؤالدین کے اضلاع سے ہے۔ اپنے خاندانوں کو غربت کے گھیرے سے نکالنے، بوڑھے والدین کو مشقت بھری زندگی کے بعد آخری عمر میں کچھ سُکھ پہنچانے، بہنوں کے جہیز، چھوٹے بہن بھائیوں کو معیاری تعلیم دلوانے کے خواب لے کر گھروں سے روانہ ہونے والے یہ نوجوان اپنے وطن میں اپنوں ہی کے ستم کا نشانہ بن کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ یورپ جانے کے لئے درکار رقم کا بندوبست کرنے کے لئے ان میں سے کسی نے چھوٹے بھائیوں کو اینٹوں کے بھٹہ پر گروی رکھوایا تھا تو کسی نے زمیندار کے پاس، ایک نے زمین بیچی تھی تو دوسرے نے مکان۔ یہ سانحہ اپنی نوعیت کے حوالہ سے اس لیے منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ اس سے قبل بلوچستان میں ایسے حملوں کا نشانہ عام طور پر وہاں کام کرنے والے غیر بلوچ بنتے رہے ہیں مگر اب پہلی بار ایسے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن کا بلوچستان کے کسی معاملہ سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہ تھا۔

یہ سانحہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا ہے جن کے جوابات اب ملک کے اربابِ اختیار کو دینا ہوں گے۔ آخر کب تک ہمارے بچے حصولِ روزگار کے لئے ان کٹھن راستوں پر اپنی جانیں گنواتے رہیں گے؟ ہر ہفتہ عشرہ میں ایک آدھ ایسی خبر ضرور نگاہوں سے گزرتی ہے کہ فلاں بارڈر کراس کرتے ہوئے اتنے پاکستانی جاں بحق ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی سطح پر یہ ایک بڑی ناکامی ہے۔ ہر شہری کا ملک کے ہر کونہ میں تحفظ حکومتِ وقت اور سیکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں غربت کی شرح بلند ہے، آبادی کے لحاظ سے روزگار کے ذرائع محدود ہیں۔ تعلیمی نظام کلرک پیدا کرنے پر ہی اکتفا کر چکا ہے۔ ٹیکنیکل تعلیم کے شعور اور مواقع کی کمی ہے(البتہ محترم ذوالفقار چیمہ کے چئیرمین ”نیوٹیک“ بننے کے بعد اک انقلابی تبدیلی کا آغاز ہوا ہے)۔

دوسری جانب قانونی طور پر حصول روزگار کے روایتی ممالک (مشرقِ وسطٰی) خود مالیاتی اور سلامتی کےبحران کی زد میں ہیں جس کی بناء پر لوگ بیرونِ ملک جانے کے لئے غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ علاوہ ازیں انسانی سمگلنگ کے انسداد کے ذمہ دار ادارہ ایف آئی اے کے بعض افسران مبینہ طور پر اس مکروہ دھندے میں ملوث ایجنٹوں کی سرپرستی کے ذریعے لاکھوں کی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ ایسے کسی واقعہ کے بعد دو چار دن کاغذی کارروائیاں کر کے لیپاپوتی کر دی جاتی ہے مگر بعد میں وہی ڈھاک کے تین پات۔

مندرجہ بالا تمام وجوہات اپنی جگہ درست مگر ہم سب کسی نہ کسی صورت میں ایسے واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارا سماج اخلاقی دیوالیہ پن کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ دولت(اکثر حرام ذرائع سے کمائی گئی) کی چک و چوند نے ہماری اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ جو جتنا بڑا رشوت خور ہے وہ اتنا ہی زیادہ قابلِ احترام، سب سے زیادہ ملاوٹ، ذخیرہ اندازی اور ناجائز منافع خوری کرنے والا ہی بازار کا سب سے بڑا حاجی صاحب ہوتا ہے( ایسے حاجی صاحبان نہ صرف خود سال میں دو چار عمرے ادا فرماتے ہیں بلکہ اکثر محافلِ نعت میں عمرہ کے ٹکٹ بذریعہ قرعہ اندازی مفت تقسیم کرتے ہیں)۔

جبکہ دوسری طرف یہ عالم ہے کہ عام لوگ دو وقت کی روٹی کو محتاج ہیں۔ بہنیں جہیز کے لئے رقم نہ ہونے پر دہلیز پر بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ غریب کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہو جائے تو سرکاری ہسپتالوں کے دھکے اس کا مقدر بن جاتے ہیں۔ ایسے میں انسانی سمگلرز اور ان کے ایجنٹ ان سادہ لوح لوگوں کو یورپ کے سہانے سپنے دکھا کر انھیں اس پُر خطر سفر پر آمادہ کر لیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اجتماعی اور انفرادی سطح پر سادگی کو فروغ دیں، بے جا نمودونمائش کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ قناعت پسندی کا جو سبق ہمیں اسلام نے دیا اور ہمارے آباء و اجداد صدیوں اس پر قائم رہے کو دوبارہ اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ سب سے بڑھ کر جہیز جیسی قبیح رسم کو ختم کرنے کے لئے حکومتی (وفاقی اور صوبائی) سطح پر سخت قانون سازی کی جائے (کاش دشمنوں سے ہی سیکھ لیں، بھارت میں جہیز کا تقاضا ایک قابلِ سزا جرم ہے)۔ شادی بیاہ اور فوتیدگی کی غیر ضروری رسوم انتہائی حد تک سادہ رکھنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں علماء بہت مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے حالات اتنے برے نہیں جتنے ہم لوگوں نے خود کو فضول رسموں کا قیدی بنا کر بنا لیے ہیں۔ ان کے خاتمہ کے لئے کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہوگا حکومتی سطح پر نہ سہی، گلی محلہ اور برادری کی سطح پر ہی سہی۔ دُوسری صورت میں تربت جیسے سانحات ہوتے رہیں گے۔

آخر میں تھوڑا ذکر بلوچستان کا جہاں یہ واقعہ ہوا ہے اور جو گزشتہ پندرہ سال سے بدامنی کا شکار ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جدوجہد اور قربانیوں سے صورتِ حال کافی بہتر تو ہوئی ہے مگر مسئلہ کی جڑ جو کہ صوبہ کو اس کے جائز حقوق سے محرومی (بلوچستان ملک کے کُل رقبہ کا تینتالیس فیصد جبکہ وسائل میں اس کا حصہ تقریباً بارہ فیصد ہے) پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ این ایف سی ایوارڈ التواء کا شکار ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات ناپَید ہیں، بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے صوبہ کے اکثر شہر محروم ہیں۔ مگر یہ تمام وجوہات کسی بلوچ کو قطعاً یہ حق نہیں دیتیں کہ وہ اپنے صوبہ میں غیر بلوچوں کا قتلِ عام کرے۔ سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو اس اندوہناک سانحہ کے مجرمان کو گرفتار کر کے انھیں قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).