قوم کا ہیرو میجر اسحاق شہید اور ملک کا ’ہیرا‘ اسحاق ڈار


اس کی زندگی میں اسحاق آیا ہو گا تو اسے اپنی خوش بختی پر یقین نہیں آرہا ہو گا اس کی سہیلیاں، رشتے دار اسے اس بات کا احساس دلاتے ہوں گے کس بہترین شخص کی شریک حیات بننے جا رہی ہے پھر جب اسے خدا نے اولاد سے نوازا ہو گا تو یہ لمحہ بھی اسے کے لئے قا بل رشک ہو گا۔ اس نے اسحاق نے اس بچے کے مستقبل کے بارے میں کیا کیا نہیں سو چا ہو گا۔ وہ اپنے فرض کی ادا ئیگی کی وجہ سے اپنی فیملی کو بہت وقت نہیں دے پاتا ہو گا لیکن وہ جب گھر آتا ہو گا تو جیسے خو شی سے گھر بھر جا تا ہو گالیکن ان اچھے لمحوں نے اس کی بیوی کو اس بات کاشاید احساس نہیں ہو نے دیا ہو گا کہ ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ وہ جائے گا اور واپس نہیں آئے گا وہ اسے بار بار پکارے گی لیکن وہ جواب نہیں دے گا۔ وہ مسلسل اس کی طرف دیکھے گی لیکن وہ اس سے آنکھیں نہیں ملا سکے گا۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں فورسز کے آپریشن کے دوران صوبہ پنجاب کے چھوٹے سے شہر خوشاب سے تعلق رکھنے والے پاک فوج کے میجر اسحاق نے دہشتگردوں سے مقابلے میں اپنی جان وطن پر نچھاور کر دی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں آپریشن کیا جس میں ایک اور دھرتی کے سپوت میجراسحاق نے جام شہادت نوش کیا۔ بتایا کہ 28 سالہ شہید میجر اسحاق کے پسماندگان میں بیوہ اور ایک سال کابچہ شامل ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ فوجی افسروں نے بھی شہید میجر اسحاق کے جنازے میں شرکت کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی بریفنگ میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہم اپنی دھرتی کودہشتگردوں سے پاک کررہے ہیں۔

مادروطن کی حفاظت کا مقدس فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے پاک فوج کے ایک کیپٹن اور حوالدار نے بھی وطن کی سرحد پر دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بناتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ میجر اسحاق کی شہادت کے بعد جاری ہونے والی تصاویر نے ہر درد دل رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کی اپنے بچے کے ساتھ تصویر نے بھی ہر دیکھنے والی آنکھ کو رلا دیا۔ مادر وطن کی حفاظت اور عوام کے تحفظ کے لئے ہر دوسرے روز اس دھرتی سے کسی نہ کسی فورس کے جوان کی شہادت جاری رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا عفریت کب تک انسانی جانیں نگلتا رہے گا؟ سوال مختصر لیکن جواب بہت طویل ہے۔ شاید پاکستان کی ساری تاریخ کھنگالنا پڑے۔ ہر دور کے گناہ گنوانا پڑیں، چلیں پوریی تاریخ کو چھوڑیں صرف دو سال پیچھے ہی چلے جاتے ہیں۔

سانحہ اے پی ایس پشاور کو ہی یاد کر لیں دل پھر خون کے آنسو روتا ہے۔ اپنی بے بسی پر نوح کناں ہوتا ہے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس نے ہر مکتب فکر کے لوگوں کو سو چنے پر مجبور کردیا کہ آخر کس طرح ہم ایسے واقعات سے بچ سکتے ہیں۔ کھوج لگایا گیا تو کھرا کرپشن پر جانکلا۔ معلوم ہوا کہ دہشتگردی اور اس کے نقصانات سے بچنے کا سب سے بڑا حل کرپشن اور کرپشن کرنے والوں کو ختم کرنا ہے۔ ملک کی دولت کے رکھوالے خود سب سے بڑے لٹیرے ہوں۔ ایک قوم کا ہیرو میجر اسحاق ہے اور دوسرا ’ہیرا‘ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہے جس نے 837ارب روپے کی اضافی گرانٹ کے اخراجات کر کے پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش نہیں کی۔ یہ اخراجات 2015 اور 2016 میں کیے گئے جب نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ اس کرپشن اور کوتاہی کی ذمہ داری وزارت خزانہ پر عائد ہوتی ہے جس نے ملک کے معاشی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔

وزارت خزانہ نے اپنی نالائقی اور کوتاہی کو تسلیم تو کر لیا لیکن کسی ذمہ دار افسر کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی کیونکہ اسحاق ڈار مبینہ کرپشن کیس میں خود کو بچانے میں مصروف ہیں اور ملکی خزانہ کو لوٹنے والے ملک میں آزاد دندناتے پھر رہے ہیں۔ ارکان قومی اسمبلی بھی اس کرپشن اور 837ارب روپے کی رپورٹ نہ دینے پر خاموش ہیں کیونکہ ان کی اکثریت بجٹ دستاویزات کو نہ تو پڑھنے اور نہ سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ نواز شریف، اسحاق ڈار جیسے لوگوں سے شروع ہونے والا کرپشن کے خلاف آپریشن بہت قربانیاں مانگ رہا ہے اور تمام اہم اداروں کی کاوش اس میں شامل ہو نا ضروری ہے۔ اگر ریاست کے چار ستون اہم ہیں تو نیب کو ریاست کی چھت کا کردار ادا کر نا ہوگا۔ دہشتگر دی کو ختم کرنا ہے تو کرپشن کو پہلے ختم کرنا ہوگا۔

میجر اسحاق جیسے جوان ہمیں پیارے ہیں تو اسحاق ڈار جیسے لو گوں کا احتساب بھی کرنا ہوگا اب وہ اپنے بستر کو مرگ کا بستر ہی کیوں نہ قرار دے۔ صرف شہادتیں کسی ملک کو قائم رکھنے کے لئے کا فی نہیں بلکہ اس دنیا میں جیتے ہوئے جرأتمند فیصلے کرنے بھی ضروری ہیں ورنہ لا کھوں اسحاق بھی شہید ہوگئے تو ملک کا غرق کر نے کے لئے ایک اسحاق(ڈار) ہی کا فی ہوگا۔ کرپٹ معاشرے کے کرپٹ اداروں کے تحت ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں سامنے آنے والے ارکان پارلیمنٹ اسی طرح کے ہوسکتے ہیں جو اتنا بھی پڑھے لکھے نہیں کہ بجٹ دستاویزات کو ہی پڑھ سکیں۔ جو ملنے والی سیٹ کو دربار عالی میں ملنے والی کرسی سمجھیں جس پر بیٹھ کر وہ جو مر ضی ہو کریں۔ جس ملک کی پارلیمنٹ کا خرچہ مہینے کا کروڑوں میں ہو اور اراکان کی اکثریت کی حاضری اور کارکردگی صفر ہو تو اس پارلیمنٹ کے پانچ سال بھی گزر جائیں تو ملک کو ان کے نہ ہونے سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں ان کے ہونے سے جو طاقت کے بل بوتے پر کرپشن ہوگی اس سے ضرور فرق پڑتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).