تاریخ


تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔

تاريخ دان

تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذراۓ معلومات کو اہميت دی گئی۔ تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجرابات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ اس کا سب سے برا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی ن.طر دال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشاہ و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21) تصور تاریخ اتنا ہی قدیم ہے کہ جتنا تصور زماں و مکاں۔ آغاز تمذن سے اب تک تاریخ نے کئی روپ دھارے ہیں۔ قصے کہانیوں سے شروع ہو کر آج تاریخ اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اسے تمام علوم انسانی کی رواں دواں کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ اجتماع انسانی کے ی شعبے مین کوئی واقعہ پیش آتاہے وہ کسی نہ کسی طرح کل کی یا تاریخ گزشتہ سے مربوط ہوتا ہے، اس لئے یہ کہا جائے کہ تاریخ سب کچھ ہے اور سب کچھ تاریخ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21)

نظریات

اناتول قراش کے خیال میں تاریخ گزشتہ حادثات و اتفاقات کے تحریری بیان سے عبارت ہے۔ ای ایچ کار کی رائے میں تحقیق شدہ واقعات کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔ کارل بیکر کے نزدیک اقوال و افعال کا علم ہے۔ سیلی کی رائے میں تاریخ گزشتہ سیاست اور گزشتہ سیاست موجودہ تایخ ہے۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22) اطخاوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا علم ہے جس کاموضع انسان زماں و مکاں ہے، جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے یہ ایک ایسا علم ہے جو کسی خاص عہد ملت کے حالات واقعات کو موضع بحث دیتاہے۔ ظہیرالدین مرغشی کے نزدیک یہ ایک ایسا علم ہے جو اگلے وقتوں کے بارے میں اطلاعات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد مکری کا قول ہے کہ تاریخ ایسا علم ہے جس میں کسی قوم یا فرد یا چیز کے گزشتہ حالات واقعات پر بحث کرتا ہے۔ آقائے مجید یکتائی کا کہنا ہے کہ اعصار و قرون کے ان احوال و حوادث کی آئینہ دار ہے، جو ماضی سے آگئی و مستقبل کے لئے تنبیہ کا باعث بنتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔22) حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا نظریات میں کتنا ہی اختلاف ہو، مگر اس حد تک سب متفق ہیں، کہ یہ ایک ایسا علم ہے جو عہد گزشتہ کے واقعات اور اُس زماں و مکاں کے بارے میں جس میں واقعات وقوع پزیر ہوئے ہیں، آئندہ نسلوں کو معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے تاریخ اتنی قدیم ہے کہ جتنی تحریر۔ یہ اور بات ہے تاریخ کی ابتدا اساطیر یا دیومالائی کہانیوں سے شروع ہوئی۔ گو تاریخ اور اساطیر مین فرق ہے۔ تاریخ کے کردار حقیقی اور زمان اور مکان متعین و مشخص ہوتے ہیں۔ جب کہ اساطیر میں کردار مقوق الفطرت مسخ شدہ یا محض تخیل کی پیداوار اور زمان و مکان غیر متعین اور نامشخص ہوتے ہیں۔ (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 22، 23)

تاریخ کی ابتدا

پروفیسر ہربرٹ اسپنر Hurbt Spenser اور گرانٹ ایلن Grant Ain کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انسان صرف اپنے اصلاف کا شعور رکھتا تھا، وہ اسلاف کے حقیقی اور فرضی کارناموں سے واقف تھا اور ان کو یاد کرتا رہتا تھا۔ امتتداد زمانہ کے ساتھ ان اسلاف کی حقیقی شخصیتیں روایتوں کے انبار تلے دب گئیں۔ رفتہ رفتہ حقیقت پر خرافات کی اتنی تہہ جم گئیں کہ لوگ اسلاف کی حقیقی شخصیتوں کو بھول گئے اور افسانوی شخصیتوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔ بہرحال اسلاف کی عظمتوں کے افسانوں نے دیوتا کا روپ دھار لیا ہو یا مظاہر قدرت کی فعالی اور صاحب ارادہ شخصیتوں کا تصور دیوتاؤں کے پیکر میں ڈھل گیا ہو، یہ حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کی تخلق انسانی ذہن کی مرحون منت ہے، اگرچہ یہ تخلق کا عمل کئی مدارج سے گزرا ہے۔ (سبط حسن، ماضی کے مزار۔ 103، 105) پروفیسر ہربرٹ اسپنر Hurbt Spenser اور گرانٹ ایلن Grant Ain کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انسان صرف اپنے اصلاف کا شعور رکھتا تھا، وہ اسلاف کے حقیقی اور فرضی کارناموں سے واقف تھا اور ان کو یاد کرتا رہتا تھا۔ امتتداد زمانہ کے ساتھ ان اسلاف کی حقیقی شخصیتیں روایتوں کے انبار تلے دب گئیں۔ رفتہ رفتہ حقیقت پر خرافات کی اتنی تہہ جم گئیں کہ لوگ اسلاف کی حقیقی شخصیتوں کو بھول گئے اور افسانوی شخصیتوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔ بہرحال اسلاف کی عظمتوں کے افسانوں نے دیوتا کا روپ دھار لیا ہو یا مظاہر قدرت کی فعالی اور صاحب ارادہ شخصیتوں کا تصور دیوتاؤں کے پیکر میں ڈھل گیا ہو، یہ حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کی تخلق انسانی ذہن کی مرحون منت ہے، اگرچہ یہ تخلق کا عمل کئی مدارج سے گزرا ہے۔ (سبط حسن، ماضی کے مزار۔ 103، 105)

مورخ کے فرائض

ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مورخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلقہ تمام علوم کو جانتا ہو۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قوائد کیا ہیں؟ موجودات کی طبعیت کس ڈھپ کی ہے؟ مختلف قوموں کا مزاج کیا ہے؟ زمان ومکان کی بوقلمونی سے احوال و عوائد کے گوشے کیوں کر متاثر ہوتے ہیں؟ مختلف مذاہب میں فرق کیا اور حدود اختلافات کیا ہیں اور کہاں ان کے ڈانڈے ملتے ہیں؟ اس طرح یہ بھی جاننا حال کیا ہے اور اس میں اور ماضی اور کیا کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں اور کن نکات پر اختلافات ہیں؟ تاکہ جو موجود ہیں ان کی مناسبتوں اور مشہابستوں سے ماضی کے دندھلکوں کی تشریح کی جائے۔ جو لوگ ان نزاکتوں کو سمجھ نہیں سکتے ہیں، وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے ہیں، کہ تاریخ کا ہر واقع ایک منفرد واقع نہیں ہوتا ہے، بلکہ اپنے اندر کئی پہلو رکھتا ہے اور کئی سمتوں سے اس کی حقانیت پر روشنی پڑھ سکتی ہے، وہ ہولناک غلطیوں میں الجھ کر رہے جاتے ہیں اور ایسے لاطائل قصے تاریخ کے باب میں پیش کرتے ہیں، جو قطعی مہمل اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75)

مورخ کی ذمہ داری

مزید ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ایک مورخ کے لئے یہ جاننا ضروری ہے، کہ تاریخ میں اگرچہ اس زمانے کے مخصوص لوگوں کا ذکر ہوتا ہے، متعین واقعات اور بڑے بڑے حوادث کی تفصیلات ہی بیان کی جاتی ہیں، تاہم اس عصر کے تمام حالات جغرافیہ اور جزئیات اس نوعیت کی ہوسکتی ہیں، کہ جن سے ان کی توصیح ہو سکے۔ اس لئے ایک محقق کو ان حالات کو نظر انداز نہیں کرناچاہیئے،اور قدم انہی کی روشنی میں بڑھانا چاہیے، ورنہ لغزرش کا سخت اندیشہ ہے۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75) ابن خلدون مزید مسعودی کے حوالے سے لکتا ہے کہ قومیں مختلف سیاسی کروٹیں بدلتی ہیں اور ایک حالت پر قائم نہیں رہتی ہیں، ان کے مزاج عوائد اور رسمیات ان تبدیلوں سے اتنے متاثر ہوتے ہیں، کہ گویا ایک نئی قوم معرض وجود میں آگئی۔ اس لئے ایک مورخ کو اس بات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا، کہ کسی خاص حکومت کی تبدیلی سے قوم میں کیا کیا تغیرات رونما ہوتے ہیں اور عرف و اصطلاع کے کون کون سے قانون تغیر و تبدل کی نذر ہوچکے ہوتے ہیں۔ تاریخی واقعات پیش کرنے میں ان تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھنا جائے اور ان اصولوں کی روشنی میں چھان نہیں کی جائے، تو امکان ہے کہ غلطیوں میں الجھ کر غیر صیح اور غیر معقول افسانوں کو پیش کیا جائے گا۔ کیوں کہ انسانی فظرت کی یہ عام کمزوری ہے، وہ غیر معمولی باتوں کو مانے میں بڑی دلچسپی اور لگاؤ کا اظہار کرتا ہے اور وہ اس سے لاپروا اور بے خطر ان قصوں کو بیان کرتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ بہر کیف جھوٹے قصے اور عجیب مضحک داستانیں اس وقت تاریخ کے اوراق کی زینت بنتی ہیں کہ مورخ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کرتا ہے اور وہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتا ہے، کہ جو بات بیان کی گئی ہے اس کے تقاضے بھی ہیں یا نہیں اور وہ اس کی تکذیب کرتے ہیں یاتصدیق۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 79)

مورخ کی لغزش

مزید ابن خلون کا کہنا ہے کہ ان اسباب کے علاوہ جو بیان کئے گئے ہیں کچھ اور عوامل بھی ہیں، جن کو وضع اور گھرنت میں براہ راست دخل ہے۔ مثلاََ ایک بڑا سبب جعل وضع کا یہ ہوسکتا ہے، کہ مورخ پہلے سے ایک عضبیت رکھتا ہو اور کسی خاص گروہ سے وابستہ ہو، اس کی کوشش حالات واقعات کے سلسلے میں ہمیشہ یہی رہے گی کہ کس طرح تاریخ سے اس کی رائے کی تائید ہوسکے اور دوسروں کی تردید، اس کی نظر واقعات و حلات کے متعلق بے لاگ اور مصفانہ نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ناقل کو یہ نہ معلوم ہو کہ خبر کے پیچھے کون سا مقصد پہناں ہے اور خبر کو جیسا کہ اس کے گمان میں ہے محض اٹکل سے بیان کردے۔ تیسرا اہم سب یہ ہے کہ تطبیق احوال کی صلاحیت نہ ہو اور ناقل یہ نہ جان سکتا ہو کہ واقعات کی تہہ میں تضع اور بناوت کی کارفرمائیوں کا کتنا حصہ ہے۔ پانچواں سبب امرا و سلاطین کے قرب کی خواہش۔ اس راہ میں کذب و اخترا کو دخل کا اکثر موقع ملا ہے۔ (مولانا محمد حنیف ندوی۔ افکار ابن خلدون، 75 تا79)

بشکریہ وکی پیڈیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments