پاکستان میں آباد برمی اور بنگالی شناخت نہ ہونے کے باعث استحصال کا شکار
محمد دین ایک گارمنٹ فیکٹری میں عارضی طور پر ملازمت کرنے کے بعد گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے آئے۔ 22 سالہ دین کو یہ کام کرتے ہوئے تین ماہ کا عرصہ گزرا ہے اور انہیں حال ہی میں پتا چلا ہے کہ جس جہاز پر وہ تیل نکالنے کا کام کررہے ہیں اس میں گذشتہ سال آگ بھڑک اٹھنے سے 32 افراد ہلاک جبکہ 10 کے قریب لاپتہ ہوئے تھےـ
مزدوروں کا کہنا ہے کہ جلنے والے جہاز کی قیمت پہلے سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں بچے کچے سامان کی بھی صنعتی منڈی میں اچھی قیمت ملتی ہے، اس لیے اب بھی اس جہاز کے بچے ہوئے ڈھانچے پر تقریباً 20 مزدور الگ الگ شفٹوں میں ٹھیکیداروں کی نگرانی میں کام کرتے ہیں۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں تقریباً چار ہزار سے زائد افراد مختلف نوعیت کا کام کرتے ہیں جن میں سے ایک کام جہاز سے تیل نکالنے کا ہےـ محمد دین اور ان جیسے بہت سے برمی اور بنگالی مزدوروں کے حصے میں یہ کام آتا ہے جس کی ان کو تربیت نہیں دی جاتی۔
لیکن اس کے باوجود زیادہ تر مزدور یہ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کمائی کے بہت کم ذرائع ہیں۔
محمد دین کا تعلق کراچی میں رہائش پذیر 3 لاکھ برمیوں میں سے ہے جو آج سے 45 سال پہلے کراچی میں کام کے غرض سے آئے تھےـ
دین سے جس وقت میں بات کرنے کے لیے پہنچی تو وہ دوپہر تک کا کام مکمل کرنے کے بعد جہاز کے پاس اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تھےـ ان کے باقی ساتھی نماز پڑھنے کے لیے نکلے ہوۓ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کو اپنے والدین کے کراچی آنے کے بارے میں صرف اتنا پتا ہے کہ وہ برما میں ہونے والے حملوں سے بچ کر آۓ تھے۔
پر خطر کام پر مجبور
محمد دین 3 ماہ پہلے تک اورنگی ٹاؤن کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں کڑھائی کا کام کرتے تھے جب ایک دن بنا کوئی وجہ بتاۓ فیکٹری بند کردی گئی۔ ’میں کام ڈھونڈ رہا تھا جب مجھے میرے ایک پڑوسی نے بتایا کہ گڈانی میں بہت کام ہے۔ میں نے یہاں آکر کام دیکھا اور سیکھا اور یہ بھی ادھر آنے کے بعد پتا چلا کہ اس جہاز میں پچھلے سال آگ لگی تھی۔‘
ان کے ساتھ بیٹھے ایک مزدور نے بتایا کہ یہ تیل اب بھی نم ہے اور ذرا سی لاپرواہی سے اس میں پھر آگ لگ سکتی ہے۔
’میں مجبوری میں یہ کام کررہا ہوں، جان بوجھ کر کوئی ایسا کام کیوں کرے گا۔‘
محمد دین نے اپنے سر پر پہنی ہوئی پیلی ٹوپی اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ہماری حفاظت کے لیے دی گئی ہے اور یہ حفاظتی پوشاک بھی دی گئی ہے تاکہ ہمیں اپنے کپڑوں میں کام نہیں کرنا پڑےـ‘
اس کے علاوہ دین کے پاس اپنی حفاظت کے لیے کچھ اور نہیں ہے۔
محمد دین نے بتایا کہ جہاں تک کام کے سیکھنے کی بات ہے، تو ان کو یہ بتا دیا جاتا ہے کہ بیلچہ اٹھا کر نمی والا تیل ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھنا ہے۔ ’اسی طرح کرتے کرتے کام سمجھ آجاتا ہے۔‘
کراچی میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں برمی اور بنگالی رہتے ہیں جن میں سے اکثریت ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ ہیں اور بیشتر گڈانی شپ بریکنگ میں کام کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے قیام اور برما میں حملوں کے بعد ان بنگالی اور برمی مسلمانوں نے کراچی کا رخ کیا لیکن ان کے پاس پاکستانی شہریت نہیں ہے۔
کراچی میں فش ہاربر میں کام کرنے والے ماہی گیروں کے مطابق، پچھلے ایک سال سے کام رکا ہوا ہے جس کی بڑی وجہ بنگالی اور برمی شہریوں کے پاس شناختی کارڈ کی عدم موجودگی ہےـ اس وجہ سے فش ہاربر پر اب پختون مزدوروں کو بھی بھرتی کیا جا رہا ہے تاکہ کام چلتا رہے۔
لیکن کپتان عبد الوارق کہتے ہیں کہ ’پختون مزدور زیادہ تر برف لانے اور لے جانے کا کام کرتے ہیں۔ ماہی گیری کے لیے بنگالی اور برمیوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انھیں بنیادی طور پر اس کام کی پرکھ ہے۔‘
شہریت اور شناخت کا مسئلہ
اس وقت کراچی میں برمی اور بنگالی رہائشیوں کی نمائندگی پاکستان مسلم الائنس کررہی ہے۔ اس جماعت کی بنیاد خواجہ سلمان خیرالدین نے 13 سال پہلے بنگالیوں اور برمی رہائشیوں کے حالات دیکھتے ہوئے رکھی تھی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس وقت کراچی میں بنگالی اور برمی مسلمان آبادی پر مشتمل 103 محلے ہیں۔ یہ رہائشی کسی بھی قسم کی مزدوری پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
’اس کی بڑی وجہ ان کے پاس شہریت کا نہ ہونا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ چند روپے کی دیہاڑی کے لیے خطرناک کام بھی کرلیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ شہریت اور شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو جگہ جگہ پولیس ہراساں کرتی ہے اور رقم طلب کرتی ہے جو نہ دینے کی صورت میں ان کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔
بنگالی اور برمی رہائشیوں کی شہریت کے حوالے سے 11 اکتوبر کو ایک اہم پیش رفت تب ہوئی جب اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کے ایک اجلاس میں بنگالیوں کو درپیش مسائل پر بات ہوئی جس میں 1971 کے بعد آنے والے بنگالیوں کو شہریت نہ ملنے کی بات بھی زیرِ بحث رہی۔
اس بارے میں خواجہ سلمان نے بھی حال ہی میں گورنر سندھ سے ملاقات کی جہاں شہریت کے حوالے سے بات کی گئی لیکن یہ بات صرف بنگالیوں تک محدود رہی۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کے بہت سے برمی اب خود کو بنگالی کہلواتے ہیں اور اس وجہ سے اب ان کی تعداد بھی کم گنی جاتی ہے۔ لیکن ہم کوشش کررہے ہیں کہ برمیوں کی شہریت کے حوالے سے بھی بات کی جائے۔‘
کراچی کے بنگالی اور برمی شہریوں کی شہریت کی لیے حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے رضامندی ظاہر کی ہے جس کو نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ناصر منصور ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں ـ ناصر منصور نے پچھلے سال گڈانی کے واقعے کے نتیجے میں 10 ’گمشدہ لاشوں‘ پر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی تھی۔ اسی پریس کانفرنس کے ذریعے بنگالی اور برمی مزدوروں کے لواحقین اپنے گھروالوں کو ڈھونڈتے ہوئے سامنے آئے تھے۔
بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’شہریت کا ملنا اس آبادی کے لیے بہت معنی رکھتا ہے لیکن جب تک شہریت نہیں مل جاتی، ان لوگوں کے پاس خطرناک کام کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔‘
- امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟ - 25/04/2024
- چڑیا گھر میں سات سال تک نر سمجھا جانے والا دریائی گھوڑا مادہ نکلی - 25/04/2024
- امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ 61 ارب ڈالر کی عسکری امداد یوکرین کو روس کے خلاف کیسے فائدہ پہنچائے گی؟ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).