فیض آباد دھرنا: نہ ہار مانتے ہپں، اور نہ قدم اٹھاتے ہیں


فیض آباد میں دھرنے کے حوالے سے حکومت جس کم ہمتی اور بے یقینی کا مظاہرہ کررہی ہے ، اس کی گونج آج سپریم کورٹ میں بھی سنائی دی۔ عدالت عظمی نے واضح کیا ہے کہ اگر لوگوں کے ہجوم کو اس بات کی اجازت دے دی جائے کہ وہ سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے حکومت سے مطالبے منظور کروائیں تو کل کو سارے فیصلے سڑکوں پر ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک جج کے ریمارکس اس لحاظ سے خوش آئیند ہیں کہ اسی عدالت کے سابق چیف جسٹس نے اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی دھمکیوں کے نتیجے میں ہی از خود نوٹس لیتے ہوئے پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کو ملوث کیا تھا ۔ اور اسی عدالت کے ایک پانچ رکنی بنچ نے جولائی میں اس مقدمہ میں منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا تھا۔ یاوش بخیر پاناما کیس پر ہنگامہ کھڑا کرنے والی سیاسی پارٹیاں بھی یہی مطالبہ کر رہی تھیں۔ ملک میں اس روایت کو ہر سطح پر ختم ہونا چاہئے کہ دباؤ اور سڑکوں کو بند کرکے مطالبات تسلیم کروائے جا سکتے ہیں اور اس مقصد میں سب اداروں کو متفق ہونا چاہئے۔

اس بات کا اعادہ وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی کیا ہے۔ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت دھرنا دینے والوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک سکتی۔ کسی کے کہنے یا مطالبہ کرنے پر کابینہ کا کوئی رکن استعفیٰ نہیں دے سکتا۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ان کے حکم پر قانون نافذ کرنے والے ادارے تین گھنٹے کے اندر فیض آباد انٹر چینج سے مظاہرین کو ہٹا سکتے ہیں ۔ تاہم انہیں اس بات کا یقین ہونا چاہئے کہ اس کارروائی کو سیاسی لحاظ سے حکومت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ احسن اقبال کو اندیشہ لاحق ہے کہ اسلام آباد کی شاہراہ پر احتجاج کرنے والے گروہ طاقت کے کسی استعمال کو انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف استعمال کریں گے۔ اسی لئے ان کا کہنا ہے کہ مظاہرین دراصل ان کے لئے لال مسجد جیسا جال تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت اس میں پھنس جائے ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ اس بات کی ضمانت کس سے مانگ رہے ہیں کہ مظاہرین کے خلاف ایکشن کو ان کی حکومت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو فیض آباد پر دھرنے کے خلاف ملک بھر سے ہر قسم کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس بارے میں واضح حکم دے چکی ہے جس پر التوا کی درخواست خود وزیر داخلہ نے کی تھی اور وہ مہلت بھی آج ختم ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے تحت اس معاملہ کی سماعت شروع کی ہے اور دھرنا کے طریقہ کار اور وہاں استعمال کی جانے والی زبان پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کے دوران دھرنا کے حوالے سے بعض اہم سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ عدالت کے فاضل ججوں نے دھرنا کی مالی معاونت، اس کے سیاسی مقاصد اور ان عناصر کے بارے میں استفسار کیا ہے جو اس دھرنا کے درپردہ محرک ہو سکتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے دریافت کیا ہے کہ اس دھرنے کا کس کو فائدہ ہو سکتا ہے اور کیا اس بات کا امکان ہے کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ہو۔ اعلیٰ عدالتوں کے اس دو ٹوک اور واضح مؤقف کے باوجود جب وفاقی وزیر داخلہ دھرنا ختم کروانے کے لئے عملی اقدام میں ہچکچاہٹ محسوس کررہے ہیں تو اسے حکومت کی نااہلی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔

فیض آباد کا دھرنا بلاشبہ سیاسی مقاصد کا حامل ہے۔ بدنصیبی سے بعض مذہبی لیڈر عقیدہ اور رسول پاک ﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی محبت کو بنیاد بنا کر عوام کو گمراہ کرنے اور اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دین کے ان نام نہاد علما کا یہ رویہ درحقیقت توہین رسالت کا مظہر ہے۔ ان لوگوں کی بول چال اور ہتھکنڈے ہر اس پیغام کی نفی کرتے ہیں جن کی تلقین رحمت العالمین حضرت محمد ﷺ نے کی تھی۔ اس کے باوجود یہ لوگ نہایت ڈھٹائی سے خود کو حرمت رسول ؑ کا محافظ قرار دے رہے ہیں۔

اس صورت حال میں جب وزیر داخلہ سیاسی مجبوریوں کا ذکر کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف عملی قدم نہ اٹھانے کا عذر تراشتے ہیں تو انہیں صرف یہی یاد دلایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک حکومت کے وزیر ہیں۔ اس حیثیت میں انہیں اپنی پارٹی کے سیاسی مفادات کا خیال رکھنے سے پہلے ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور ہر قیمت پر لاقانونیت کا پرچار کرنے والوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ کے طور پر احسن اقبال سیاسی مجبوریوں کا حوالہ دے کر فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کے ہاتھ مجبور کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali