سیاست کی منزلیں اور گمراہ راستے


کبھی کبھار راستے میں اتنی رنگینیاں اور دلچسپیاں بکھری ہوتی ہیں کہ راہ رو کی تمام تر توجہ اِنہی پر مرکوز رہتی ہے۔ منزل کا حصول فراموش ہو جاتا ہے۔ کچھ یہی حال کوچۂ سیاست میں ہمارے عوام کا ہو چکا ہے۔ وہ راستوں کی رونق میں گم ہو کر یہ احساس کھو چکے ہیں کہ سیاست صرف ایک وسیلہ ہے اور اچھی حکمرانی کا حصول اُس کی آخری منزل۔

ہماری سیاست ایک الف لیلیٰ کی داستان بن چکی ہے۔ بچپن میں داستانِ امیر حمزہ اور قصہ چہار درویش کا سحرذہن کو جکڑ لیتا تھا۔ دِن کو کتاب پڑھتے تو رات بھر نیند نہ آتی۔ یہی سوچتے رہتے کہ عمر و عیار کی زنبیل یا سلیمانی ٹوپی ہاتھ آ جائے تو دوسروں کی نظروں سے چھپ کر کیا کچھ نہ کر گزریں۔ یہ تو بچپن کی باتیں تھیں مگر آج ٹیلی وژن دیکھتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ مملکت ِ خداداد میں سیاست دانوں کے علاوہ بھی کئی گروہ سلیمانی ٹوپی پہنے، اِسی میدان میں نت نئے کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔ اِن نادیدہ اشخاص کے پاس عمر و عیار سے بھی بڑی زنبیل ہے۔ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں اپنے مخالفین کو زیر کر سکتے ہیں۔ اِن نامعلوم افراد کی ستم ظریفی، کوئی حد نہیں رکھتی۔ وہ چاہیں تو شہنشاہ جہانگیر کی زنجیرِ عدل کو کسی خانہ زادِ زلف کے پائوں میں الجھا دیں، انارکلی کی بجائے، اُن کی منشا پر، شہزادہ سلیم کو دیوار میں چُن دیا جائے یا نورجہاں کو شہنشاہ جہانگیر سے طلاق کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر دیں۔

میڈیا پر نادیدہ مخلوق کی رپورٹنگ بھی دلچسپ طریق سے ہوتی ہے۔ صرف چلمن کے پردے ہل رہے ہوتے ہیں۔ سکرین پر رقص کرتی ہوئی پتلیاں نظر آتی ہیں مگر ڈور ہلانے والے نظروں سے اوجھل۔ مشہور ڈرامہ ’’میرا سلطان‘‘ رُوپ بدل کر ٹیلی وژن پر جلوہ گر ہوتا ہے۔ ناٹک اتنا دلچسپ کہ خاتونِ خانہ بھی ساس بہو کے جھگڑوں سے آزاد ہو کر نیوز چینل کی گرویدہ ہو چکی ہیں۔ ریموٹ پر اب بھی کھینچا تانی ہوتی ہے مگر اپنے پسندیدہ اینکر کے لئے، جو ناظرین کی دلچسپی کے لئے نت نئی واردات کرتے ہیں۔ آج کل اُن کا پسندیدہ کھیل سیاست دانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اہلِ سیاست عوام کی یادداشت کے دورانیے کو مختصر سمجھتے ہوئے خوش گمان ہیں کہ کہی ہوئی بات فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ وہ ٹیلی وژن کی شکار گاہ میں آئیں تو ہمارا اینکر ایک ماہر شکاری کی طرح اُنہیں گھیر کر نشانے پر لاتا ہے اور پھر ’’جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا‘‘۔ برسوں پہلے کہی ہوئی بات اِس طرح سامنے آتی ہے، گویا یومِ حساب، دفترِ عمل کھل گیا ہو۔

سیاست کے دلنشین راستوں پر ہمارے اینکر، تجزیہ کار اور ماہرینِ امورِ سیاست اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ اُن کے پاس ہر رحجان اور طرزِ فکر کی تسکین کا سامان موجود ہے۔ فکروخیال کی ایک قوسِ قزح تان دی گئی ہے۔ جو چاہیں چُن لیں۔ آپ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت چاہتے ہوں، خواہش ہو کہ کسی سیاسی خاندان کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے، جمہوریت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کے متمنی ہوں یا تمنا ہو کہ یہ نظامِ حکومت قائم رہے، میڈیا کے پاس ہر قسم کے صاحب ِعلم ان متنوع موضوعات کے حق میں دلائل رکھتے ہیں۔ اگر آپ اُردو ادب کے شوقین ہیں تو ٹیلی وژن سکرین پر ’لال بجھکڑ‘ سے ملاقات ہو جائے گی۔ فسانہ آزاد کے مشہور بٹیر ’صف شکن‘ کے جلوے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اور کچھ ماہرین سیاست تو زمانۂ اکبری کے اطالیق ’بیرم خان‘ کی طرح کسی اکبر کو اپنے سایۂ عاطفت میں لینے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اکبر اُن کی شاگردی قبول کرنے پر راضی نہیں۔ مگر کوئی بات نہیں۔ اکبر دستیاب نہیں تو کیا ہوا۔ قارئین اور ناظرین تو ہیں۔ اگر علم و حکمت کے کچھ موتی اُن کی جھولی میں بھی ڈال دیئے جائیں تو کیا حرج ہے۔ اگر اِن روشنی کے میناروں کے نورِ بصیرت میں کمی رہ جائے تو اُسے ’’اندر کی خبر‘‘ سُنا کر ناظرین اور قارئین کی دلچسپی قائم رکھی جاتی ہے۔

ایک اور مسئلہ قومی مفاد کی تشریح کا ہے۔ امیر البحر کو فکر ہے کہ قومی فکر کی کشتی کو طے شدہ قومی مفاد کی تنگ نائے سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اہلِ فکر کو کھلے پانیوں کی آزاد خیالی راس نہیں آتی۔ اگر وہ وہاں کا قصد کریں تو اُنہیں ملکی تحفظ کی لائف جیکٹ اِس ہدایت کے ساتھ دی جاتی ہے کہ حفظِ جان کے لئے اِسے ہر وقت پہنے رکھیں۔ دوسری مشکل غیر جانبداری کا فقدان ہے۔ اہلِ صحافت اور اہلِ سیاست کے درمیان قربت کے تعلقات قائم ہیں اور اِس تعلق میں شکوے شکایت کی بھرمار فکر کو گہنا دیتی ہے۔ کسی کو الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملتا اور کوئی ماہرِ بین الاقوامی امور صحافی، سفارت کاری کے اعزاز سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کسی کو ادارے کی سربراہی نہیں ملتی اور کسی کو عہدۂ جلیلہ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہ شکوے شکایتیں مستقل مخاصمت میں بدل جاتی ہیں۔ مذہبی احکام کے مطابق عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے مگر اہلِ صحافت اتنے کشادہ دل نہیں، وہ وعدہ خلافیوں کا بدلہ لیتے رہتے ہیں۔ ذاتی دشمنی کے تڑکے سے کوچۂ سیاست اور بھی دلچسپ ہو جاتا ہے۔

مگر قارئین راہِ سیاست میں چار سُو پھیلی ہوئی دلچسپیاں ہمیں اُس منزل کے حصول سے دُور لے جاتی ہیں جس سے عوام کا مفاد وابستہ ہے۔ چنائو سے پہلے سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ اُن کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری اُٹھائی جاتی ہے۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا وعدہ اور حصولِ انصاف، صحت عامہ اور تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے طریقۂ کار کا اعلان ہوتا ہے۔ اہلِ زر سے ٹیکس وصول کر کے ضرورت مندوں کو سہولت بہم پہنچانے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ مگر کیا ہمارا میڈیا سیاسی جماعتوں کو وعدے نبھانے کا پابند بناتا ہے؟

گزشتہ الیکشن کے بعد اُمید کی کرن نظر آئی تھی۔ پیپلز پارٹی کو سندھ، تحریک انصاف کو خیبر پختونخوا اور مسلم لیگ(ن) کو پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ خیال تھا کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان اچھی حکمرانی کا مقابلہ ہو گا جو آئندہ الیکشن میں اُن کی مقبولیت کا معیار ٹھہرے گا۔ میڈیا ذمہ دار تھا کہ وہ عوام کو اُن کی کارکردگی سے آگاہ رکھتا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ اہلیت ہی پیدا نہیں کی گئی جو اچھی حکمرانی کے معیار پر کارکردگی کو پرکھ سکے۔ عوام کو کوچۂ سیاست کے راستوں کی بھول بھلیوں میں گُم کر کے سیاست کو مطعون کیا جاتا ہے کہ وہ عوام کی نظر میں بے وُقعت ہو جائے۔ حالانکہ ایک وفاق کے مختلف خطوں میں بسنے والے لوگوں کو علیحدہ زبان اور رسوم و رواج کے باوجود ایک قومیت کی لڑی میں پرونے کی ضرورت موجود ہے اور یہ کام انتظامی احکامات یا عدالتی فرمان سے ممکن نہیں۔ ملک کی وحدت کے ساتھ ساتھ سماج اور معاش کی ترقی بھی سیاست کی تماشہ گری سے جڑی ہوئی ہے۔ تاریخ کا ادراک ہو تو پتا چلتا ہے کہ اِسی تماشہ گری کے ذریعے ہی اچھی حکمرانی کی منزل پائی جا سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood