دوسروں کے غم کا احساس (ایمپتھی) کیوں ضروری ہے؟


جب ہم یونیورسٹی میں فائن آرٹس پڑھنے گئے تو پہلا ٹاپک جو ہم نے پڑھا وہ ایمپتھی کے بارے میں تھا۔ میں نے ایمپتھی کے اردو تراجم دیکھے، ایک ہمدردی ہے جو کہ اس کی درست ترجمانی نہیں کرتا اور ایک ہمدلی ہے۔ میں ہمدلی لفظ یا اس کے درست استعمال سے واقف نہیں ہوں تو میں ایمپتھی ہی استعمال کروں گی۔ ایمپتھی ہمدردی سے فرق ہے، کیونکہ ہمدردی آپ کسی کی حالت دیکھ کر اس کی ذات سے باہر کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔ مثلا آپ نے اگر ایک شخص دیکھا جس کی ٹانگیں نہیں ہیں تو آپ اس کی طرٖف افسوس سے دیکھیں گے کہ ہائے افسوس اس کی ٹانگیں نہیں بے چارہ کیسے چلتا پھرتا ہو گا۔ مگر ایمپتھی میں آپ خود کو اس کی جگہ رکھ کر محسوس کریں گے کہ اگر خدانخواستہ آپ کی ٹانگیں نہ ہوں تو آپ کیسے محسوس کریں گے، آپ کو کیا دقت پیش آئے گی، آپ اپنے کام کس طرح کریں گے۔ ہمیں ایمپتھی کے بارے میں اس لئے پڑھایا گیا تھا کہ ایک فنکار کے لئے محسوس کرنا اور کسی دوسرے کی جگہ کھڑا ہو جانا بہت ضروری ہے۔ ایک فنکار کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے جذبات کا اظہار کینوس پر کر سکے بلکہ دوسروں کے احساسات کی ترجمانی بھی کر سکے، اور ایسا تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کے فنکار کے اندر ایمپتھی یا دوسروں کا درد محسوس کر سکنے کا جذبہ نہ ہو۔

مگر ایمپتھی کا جذبہ تو فنکار کیا، کسی بھی حساس اور مہذب معاشرے کے فرد کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کے لئے کسی کی جگہ خود کو رکھ کر محسوس کر سکنے کا جذبہ تو دور کی بات، ہمدردی کے جذبات بھی مشکل سے پائے جاتے ہیں۔

میری ایک دوست ہیں جو ابھی حال ہی میں مجھے ملیں۔ ان کا بیٹا ایک ہڈیوں کی ایسی بیماری کا شکار ہے جس بیماری میں اس کا سر اور دھڑ تو ایک عام انسان کی طرح بڑھتا رہے گا مگر اس کے بازو اور اس کی ٹانگوں کی نشوونما اس حساب سے نہیں ہو سکے گی۔ اس کی وجہ سے اس کا قد ایک عام اوسط لڑکے کے مطابق نہیں ہو سکے گا۔ ہم نے اکثر ایسے پستہ قامت افراد کو ہوٹلوں کے باہر دروازے کھولتے اور ٹی وی پر مزاحیہ کردار ادا کرتے دیکھا ہو گا۔ اس بیماری کا نام اکونڈروپلیزیا ہے۔

اگر آپ ایک ایسے انسان کی جگہ خود کو رکھ کر سوچنے کی کوشش کریں تو آپ اس کی مشکلات کا ادراک کر سکیں گے۔ مثلا شاید وہ ایک اونچے دروازے پر لگی چٹخنی نہ کھول سکے، شاید وہ ایک عام باتھ روم کی مروجہ اونچائی پر لگے سنک میں با آسانی ہاتھ نہ دھو سکے، شاید ہوٹلوں میں رکھے کرسی اور میز کی اونچائی میں اسے دقت محسوس ہو اور شاید بہت سے ایسے مقامات ہوں جن میں اسے شدید دشواری پیش آئے۔ مگر اس سے آگے جب وہ ان ساری مشکلات اور دقتوں پر قابو پا کر لوگوں کا سامنا کرے گا تو اکثر لوگ اس بات کا کوئی ادراک نہیں کریں گے کہ اس کی زندگی کس قدر دشوار ہے۔ اسے بونا کہا جائے گا، عوامی مقامات پر اس کی طرف اشارےکیے جائیں گے کہ دیکھو وہ لڑکا چھوٹے قد کا ہے۔ شاید اپنی جسامت کی وجہ سے پیش آنے والی دقتوں پر وہ قابو پا لے مگر مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کے رویوں کو برداشت کرنا شاید اس کے لئے اتنا آسان نہ ہو کیونکہ ہم ایک دوستانہ رویہ رکھنے والا حساس معاشرہ نہیں ہیں۔ یہ بچہ عام معاشرے کے انسانوں سے ہرگز بھی ہٹ کر نہیں ہے، یہ محض ایک بیماری کا شکار ہے، مگر ماسوائے چند لوگوں کے، کوئی بھی اس بارے میں لمبی سوچ نہیں سوچے گا۔

عمومی طور پر بھی کسی کی آبنوسی رنگت کا مذاق اڑانا، موٹے پن یا دبلے پن پر ہنسنا ہم بالکل مناسب اور جائز خیال کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ عمومی طور پر اس تعلیم اور شعور کی کمی ہے جس سے ہمدردی اور احساس پیدا ہوتا ہے۔

مگر احساس کے یہ جذبات خود میں پیدا کیے جا سکتے ہیں اور کبھی بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ ویڈیوز کبھی کبھی نظر سے گزرتی ہیں نہ کہ جیسے سونو نگم نے بھیس بدل کر غریب فنکار کے طور پر گانا گایا تو کیا رویہ سامنے آیا، یا جب رچرڈ گئیر کو ایک کردار ادا کرتے ہوئے بے گھر آدمی سمجھا گیا تو انہیں کیسا لگا۔ ایمپتھی کے لئے تو آپ کو بھیس بدلنے کی بھی ضرورت نہیں۔ آپ خود سے سوچ سکتے ہیں۔

آپ دھیرے دھیرے دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ تھوڑا سا وقت دوسروں کے بارے میں سوچیں۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے بارے میں سوچیں۔ اگر آپ موٹے ہیں اور آپ کو خود پر کی گئی تنقید بری لگتی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بہت دبلے کو بھی یہ تنقید بہت بری لگے گی۔ ہم سب پر ہماری لینہ حاشر کی تحریریں کیوں رلا دیتی ہیں؟ اس لئے کیونکہ وہ دوسروں کی جگہ بیٹھ کر ان کے آنسووں میں دھل کر تحریر کی گئی ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کو حساس لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔ میری مرحومہ ساس کے ایک شعر کا مصرعہ ہے کہ
سوچتے اتنا ہیں کہ بیمار پڑ جاتے ہیں ہم

چلیں بیمار پڑنے کی حد تک نہ صحیح مگر ہمیں شدید ضرورت ہے کہ ہم دوسروں کے نظریے سے سوچ سکیں، چاہے وہ اقلیتیں ہوں، کمزور لوگ ہوں، یا بیمار لوگ ہوں۔ اتنا تو سوچ سکیں کہ ان کی تکلیف اور اذیت کو کم نہیں کر سکتے تو کم از کم مزید تو نہ بڑھائیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim