مقابلے کے امتحان کے پرچے


عنوان بالا کے تحت گزشتہ ماہ ایک کالم میں ہم نے انکشاف کیا تھا کہ سی ایس ایس کے جنرل نالج کے حل شدہ پرچوں کا ایک بنڈل ہمارے ہاتھ لگا ہے۔ محکمہ اینٹی کرپشن لاہور ریجن کے مطابق کاریگروں کا ایک گروہ پوسٹ آفس کے عملے کی ملی بھگت سے پیپرز کی سیل کھول کر ان کے ساتھ پہلے سے حل شدہ شیٹس لگا دیتا تھا۔ ہمیں ملنے والا بنڈل ان شیٹس پر مشتمل ہے جو اس کار خیر کے دوران پرچوں سے اتاری جاتی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ معاشرے سے کریم کشید کرنے کے عمل میں ملاوٹ کا مرتکب یہ گروہ پسِ زنداں ہے یا اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کرنے والوںکی طرح دندناتا پھر رہا ہے؛ تاہم وہ جہاں بھی ہے خوش رہے کہ ہمارے دال دلیے کا بندوبست کر گیا۔ آج اس سلسلۂ دو نمبری کی دوسری شیٹ کا مطالعہ فرمائیے۔

سوال: رٹ آف گورنمنٹ سے کیا مراد ہے؟ تفصیلی بحث کریں۔
جواب: سوال مبہم ہے۔ لگتا ہے کہ پیپر بنانے والے صاحب کا خود اپنا نالج ذرا بھی جنرل نہیں، ورنہ وہ واضح لکھتے کہ ”رِٹ آف گورنمنٹ‘‘ کا پوچھ رہے ہیں یا ”رَٹ آف گورنمنٹ‘‘ کا؛ تاہم طالب علم احتیاطاً دونوں کا جواب لکھ رہا ہے۔
اکثر لوگ ملتے جلتے ناموں سے دھوکا کھا جاتے ہیں، حالانکہ نام کی مماثلت کے باوجود رِٹ آف گورنمنٹ اور رَٹ آف گورنمنٹ دو مختلف اور متضاد چیزیں ہیں۔ رِٹ آف گورنمنٹ کو حکومت یا ریاست کی رِٹ بھی کہا جاتا ہے۔ حکومت کو تو خیر اور بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے اور کئی اور تہمتیں بھی اس کے سر دھری جاتی ہیں‘ لیکن وہ سوال سے غیر متعلق ہیں۔ رِٹ آف گورنمنٹ کا مطلب واضح کرنے کے لیے یہ امیدوار ایک تاریخی واقعہ کا سہارا لے گا۔ ہندوستان میں انگریز سرکار کا دور ہے۔ ایک دیسی تحصیلدار کسی گائوں میں اراضی کے تنازعہ کے سلسلے میں حد براری کے لیے جاتا ہے۔ ایک بدمعاش اور بااثر فریق میرٹ پر اپنے خلاف فیصلہ ہوتے دیکھ کر برچھیوں سے تحصیلدار کو قتل کر دیتا ہے۔ اس سانحے کی بازگشت برطانیہ کے اعلیٰ ایوانوں تک سنائی دیتی ہے۔ انگریز سرکار اپنی وسیع و عریض راجدھانی (جس کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا) کے ایک دور دراز پسماندہ گائوں میں بھی اپنے ادنیٰ افسر کے قتل کو اتنی سنجیدگی سے لیتی ہے کہ وہ اسے تاجِ برطانیہ پر حملہ قرار دیتی ہے اور قاتلوں کو ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والوں سے تعبیر کرتی ہے۔ پس بغیر کوئی بڑھک مارے کہ مجرموں کو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے یا قاتلوں کوکیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے، فوری طور پر ملزمان گرفتار ہوتے ہیں۔ قواعد سے ہٹ کر گورا سیشن جج اسی گائوں میں جا کر عدالت لگاتا ہے اور بلاناغہ چند روز کی سماعت کے بعد بدمعاش گروپ کے سات پردھانوں کو سزائے موت سنائی جاتی ہے۔ پھر اسی مقام پر جہاں سرکاری ملازم قتل ہوا‘ اور جہاں مجرموں کی مرضی کے بغیر پرندہ پَر بھی نہیں مار سکتا تھا، پھانسی گھاٹ تیار ہوتا ہے اور ہزاروں لوگوں کے سامنے ساتوں مجرم سرِ عام تختہ دار پر لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ دنیا میں اس کو رِٹ آف گورنمنٹ یا رِٹ آف سٹیٹ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک رَٹ آف گورنمنٹ کا تعلق ہے تو یہ وہ ”رَٹ‘‘ ہے جو کسی ملک کے اکابرین حکومت طوطے کی طرح لگائے رکھتے ہیں۔ مثلاً ”ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے‘‘ ”عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے‘‘ ”کسی کو کوئی عوامی گزرگاہ بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ ”دھرنا ختم کرانے کیلئے سخت اقدامات کریں گے‘‘ ”مجرموں کو عبرتناک سزائیں دیں گے‘‘ ”لوڈ شیڈنگ ختم کرکے دم لیں گے‘‘ ”عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کریں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ رَٹ آف گورنمنٹ مسلسل جاری رہتی ہے اور دوسری طرف ریاستی رِٹ چیلنج کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں، عوام کے جان و مال دہشت گردوں اور ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہتے ہیں، دھرنے والے مسلسل دو دو، تین تین ہفتے اور بعض اوقات تو چار چار ماہ تک عوام کا ناطقہ بند رکھتے ہیں۔ مجرم باعزت بری ہوتے رہتے ہیں، لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے اور انصاف سائلان سے کوسوں دور رہتا ہے، حتیٰ کہ وہ خود رَٹ لگانے والوں سے بھی دور ہی رہتا ہے۔ پس رِٹ آف گورنمنٹ اور رَٹ آف گورنمنٹ میں یہی فرق ہے۔

سوال: آپ اپنے جمہوری نظام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ مفصل نوٹ لکھیں۔
جواب: میں اس جمہوری نظام کو خونخوار نظروں سے دیکھتا ہوں۔ ہماری جمہوریت سیکنڈ ہینڈ ہے جبکہ ہمیں زیرو میٹر جمہوریت کی ضرورت ہے، جس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ ہم نے یہ سیکنڈ ہینڈ جمہوریت برطانیہ سے درآمد کی تھی۔ کم بختوں نے اپنے ہاں تو زیرو میٹر جمہوری مشینری نصب کرلی اور ہمیں جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں اور لٹیروں کی پطرسی، تھکی ہوئی اور زنگ آلود مشینری والی گاڑی دے گئے، جو رکے تو کوہِ گراں اور چلے تو پطرس بخاری کی بائیسکل کی طرح اس کا انگ انگ شور مچائے۔ ہم نے بھی اس کے ”علاج‘‘ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر شرافت نام کا کوئی پرزہ سرے سے اس میں ہے ہی نہیں۔ کبھی ہم نے اس میں صدارتی انجن فٹ کرایا اور کبھی پارلیمانی مگر اسے ڈھنگ سے چلنا نہ آیا۔ کئی دفعہ ہم نے مارشل لاء نافذ کرکے جمہوری مشینری کو طویل ریسٹ دیا اور اس دوران اس کی اچھی طرح اوورہالنگ کرکے ایجنسیوں کے ہنر کے شاہکار صاف ستھرے اور دیانتدار لوگوں پر مشتمل سیاسی جماعتوں کے پیٹر انجن بھی نصب کیے مگر وہ جو کہتے ہیں ”ہرکہ در کانِ نمک رفت، نمک شُد‘‘ جو بھی شریف اس گند میں داخل ہوا، وہ گندا ہو کر ہی نکلا۔

ہماری کھٹارا جمہوریت ستر سالوں میں عوام میں سیاسی شعور نام کی کوئی چیز پیدا نہیں کر سکی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ہمیشہ چوروں اور لٹیروں کو منتخب کر بیٹھتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہنر کاروں نے متعدد مرتبہ انتخابی نتائج کی نوک پلک سنوار کر جمہوریت کی اس گاڑی میں اچھی شہرت کے حامل پرزے بھی فٹ کرکے دیکھ لیے۔ قبلہ ضیاء الحق دام برکاۃ تو اس گاڑی سے اتنا شغف اور ہمدردی رکھتے تھے کہ کامل گیارہ برس تک اوزاروں سے مسلح ہوکر اس کے انجن میں گھسے رہے۔ آپ نے اسے ہوم میڈ غیر جماعتی انجن سے بھی چلانے کی کوشش کی مگر کم بخت پہلے سے بھی زیادہ دھواں اگلنے لگی۔ جس طرح ہمارے مشاق موٹر مکینک پرانی گاڑیوں میں جگاڑ لگاتے ہیں اور ان میں مختلف گاڑیوں کے پرزے پھنسا کر اور تُھک تھگڑی لگا کر انہیں چالو حالت میں لاتے ہیں، اسی طرح ہمارے منجھے ہوئے کاریگروں نے مختلف آئین تیار کرنے کے علاوہ 73ء کے آئین میں ترامیم کے ذریعے جگاڑ لگا لگا کر اسے چلتا کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بے کرمی چل چل کر کھوچل ہوگئی مگر اسے صحیح طریقے سے چلنا نہ آیا۔

ہمارے نا م نہاد جمہوریت پسند دانشوروں کا خیال ہے کہ اس نظام میں کوئی خرابی نہیں۔ اگر اسے عدم مداخلت کی پالیسی کے تحت مسلسل چلنے دیا جائے تو چھوٹی موٹی خرابیاں خود ہی دور ہو جائیں گی اور یہ گاڑی زیرو میٹر ہو جائے گی۔ غالباً وہ یہ اس لیے کہتے ہیں کہ جس طرح ہماری جمہوری گاڑی ریسورس گیئر میں چل رہی ہے، یہ اسی طرح رواں رہی تو زیرو میٹر ہو جائے گی کہ ریورس گیئر میں چلنے والی گاڑیوں کے میٹر بھی الٹے چلتے ہیں اور چلتے چلتے ایک دن وہ صفر پر آ ہی جاتے ہیں۔ میں ان دانشوروں کے مقابلے میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لیے ایک ذاتی مثال دیتا ہوں کہ میرے ایک دوست کے والد بزرگوار کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کا بیٹا علاج کرا کرا کے تھک گیا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ بزرگوں کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا ”میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ستر سال سے زیادہ زندہ رہنا کوئی شرافت نہیں‘‘۔

میرا بھی یہی خیال ہے اس ملک میں کوڑھ زدہ جمہوریت کو ٹھڈے کھاتے، کھانستے اور روتے ستر سال ہو گئے ہیں، لہٰذا اسے بھی اب شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).