فیض آباد دھرنا ذاتی شہرت کا حربہ ہے۔ سپریم کورٹ


سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاہےکہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنامشکل ہوتاجارہاہے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ راستہ بند کردیا جائے، شخص کی رٹ قائم ہے ریاست کی نہیں، فیض آباد دھرنا پر خرچ ہونے والے خزانے کے ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے۔

فیض آباد دھرنا نوٹس کیس کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دورکنی بینچ نے کی۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے اپنی رپورٹس عدالت میں جمع کرادیں ۔ اٹارنی جنرل اشتراوصاف عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایاکہ اس وقت دھرنا میں1800سے زائد لوگ شریک نہیں ہیں، دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے اقدامات کررہے ہیں،دھرنا والوں کے خلاف 18مقدمات درج کیے ہیں اور 169لوگوں کو گرفتار کیا گیاہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالتیں بند ہو گئی ہیں ،کل کوئی اور مسئلہ آئے گا تو کیا پھر شہر بند ہو جائیں گے ۔ پاکستان کو دلائل کی بنیاد پر بنایا گیا، جب دلیل کی بنیاد ہی ختم ہوجائے ،ڈنڈے کے زور پر صحیح بات اچھی نہیں لگتی، اپنی شہرت کے لیے سب ہورہاہے تاکہ نام آجائے، لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے، ایک حوالہ دے دیں کہ راستہ بند کردیا جائے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا، جب ریاست ختم ہوگی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ درخت لگانا بھی نیکی کا کام ہے وہ کوئی نہیں کرتا، میڈیا والے ایسے لوگوں کو بلاتے کیوں ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، احکام الٰہی پر عمل نہیں ہورہااور ریاست کا سرجھکا ہوا ہے، ہم بھی پریشان ہوتے ہیں مگر گالم گلوچ نہیں کرتے ، یہ سب انا کے لیے ہورہاہے ۔

جسٹس فائز عیسی نے کہا کنٹینر عوام کے پیسے سے لگائے گئے ہیں ، کتنا خرچہ آرہاہے ۔ پبلک ٹرانسپرنسی کے لیے بتایا جائے کتنا خرچہ ہورہاہے، رحمت کا سلام کسی کے منہ سے کیوں نہیں نکل رہا، سب کے منہ سے گالم گلوچ نکل رہی ہے، سمجھ نہیں آرہی یہ ملک کیسے چلے گا،کل ایسا کرتے ہیں مقدمہ سڑک پر لے جاتے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل اور عدالت میں موجود وزارت داخلہ و دفاع کے حکام کے استفسار کیا دھرنے والوں کوکھانا پینا کیسے جارہاہے؟ ہم نہیں چاہتے کہ ان پر گولیاں برسائی جائیں، دھرنے والوں کو سہولیات بھی فراہم نہ کی جائیں۔

انہوں نے میڈیا نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا بھی آئین کے آرٹیکل 19کا خیال کرے ۔ ایسے لوگوں کو دعوت نہ دے جو ان کے حامی ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر دھرنے کی خبروں کوبلاک کیوں نہیں کیا گیا؟ ہماری ذمے داری قانون کی تشریح ہے، بتائیں کیا حکم دیں؟ ذمہ داری ریاست اور انتظامیہ کی ہے، ہم آپ کا کام نہیں کریں گےپھر آپ ہی شکوہ کریںگے کہ ہمارے کام میں مداخلت ہوئی۔

عدالت نے آئی ایس آئی سے دوبارہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کردی ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).