سعودی عرب اور اسرائیل کی یہ بڑھتی قربت کیوں؟


سعودی عرب اور اسرائیل ایران کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے خلاف کوششوں میں ایک دوسرے کے غیر اعلانیہ اتحادی ہیں۔
یہ رشتہ پروان چڑھ رہا ہے لیکن یہ انتہائی احساس ہے اور گاہے بگاہے اس میں ایک عندیہ ملتا ہے کہ اندر کھاتے کیا کیا ہو رہا ہے۔

گذشتہ ہفتے اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل گیڈی ائزنکوٹ نے برطانیہ سے کام کرنے والے سعودی اخبار ایلاف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ انٹیلیجنس کا تبادلہ کرنے پر تیار ہے۔

انھوں نے انٹرویو میں کہا تھا کہ جہاں تک ایران کے حوالے سے خدشات ہیں تو دونوں ملکوں کا مشترکہ مفاد اس کو روکنے سے وابستہ ہے۔

اس انٹرویو کے چند دن بعد سعودی عرب کے سابق وزیر انصاف محمد بن عبدل کریم عیسیٰ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی نے پیرس میں منعقدہ ایک کانفرنس کے بعد اسرائیلی اخبار معریو کو بتایا تھا کہ’ اسلام کے نام پر تشدد یا دہشت پر مبنی کسی بھی اقدام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے اسرائیل سمیت کسی جگہ درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔‘

عرب دنیا میں اس طرح سے اسرائیل کے خلاف حملوں پر کھلے عام تنقید کرنا بہت غیر معمولی بات ہے۔
اس کے بعد اسرائیلی فوج کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے حال ہی میں سعودی سینئیر شہزادوں سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں انھیں بتایا گیا ہے کہ ’اب آپ ہمارے دشمن نہیں ہیں۔‘

اس طرح کے پیغامات کوئی حادثاتی طور پر نہیں بھیجے گئے ہیں۔ یہ احتیاط اور ہم آہنگی پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد ایران کو قائم ہونے والے ان تعلقات پر خبردار کرنا ہے اور اس کے ساتھ متوقع طور پر سعودی عرب کے معاشرے کو تیار کرنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر اس طرح کے تعلقات زیادہ نمایاں ہو سکتے ہیں۔

صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی اپنے سیاسی کلچر کی وجہ سے ان تعلقات کے بارے میں سعودی عرب کی نسبت قدرے کھل کی بات کرتے ہیں۔ ہم اس کے قابل عمل حقائق اور سٹریٹیجک اسباب کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں لیکن یہ تعلقات حقیقی ہیں اور قائم ہو رہے ہیں۔

یہ ایک مرحلے پر’ حالات پر مبنی اتحاد‘ ہے۔ عراق میں 2003 میں امریکہ کی سربراہی میں اتحاد کے ہاتھوں صدام حسین کی دورِ اقتدار کا خاتمے کی صورت میں سنّی عرب دنیا میں سٹریٹیجک توازن شیعہ ایران کے حق میں چلا گیا۔

اس کے نتیجے میں شیعہ اکثریتی سیاسی قیادت نئے عراق میں سامنے آئی جس کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ شیعہ ملیشیا شام میں صدر بشار الاسد کے حمایت میں ایک سرگرم جنگ لڑ رہی ہے۔

ایران کا روس کی فضائی طاقت اور آلات کے ساتھ شام کی خانہ جنگی میں صدر بشارالاسد کا ساتھ دینے کے فیصلے سے شامی صدر کو حالات اپنے حق میں کرنے میں مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں ایران کو بحیرہٴ روم تک راہداری حاصل ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو بہت سارے سنّی غیر ملکی، فارس کی عرب مشرق وسطیٰ کے عین وسط میں بجا داخل اندازی سمجھتے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان عداوت دفاعی اور مذہبی دونوں ہیں۔ اس وقت ایران اور اس کے اتحادی اور پراکسیز، جیسا کہ لبنان میں شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کامیاب بن کی سامنے آئے ہیں۔ تو اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کا دونوں ممالک میں جواز بنتا ہے۔ دونوں کا اصرار ہے کہ ایران کو جوہری طاقت کی حامل ریاست بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ دونوں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے حوالے سے کیے گئے بین الاقوامی معاہدے کے پہلوؤں سے مطمئن نہیں ہیں۔ اور دونوں ہی لبنان میں حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اور بھرپور طور پر مسلح ہونے کو خطے میں عدم استحکام کی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

لیکن یہاں اس کے علاوہ اور بھی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ صرف ایران کے ابھرنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ دیگر اہم پہلوؤں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، خاص کر امریکہ میں نئی ٹرمپ انتظامیہ کا اثر اور وسیع تناظر میں مشرقٰ وسطی میں عرب سپرنگ اور شام میں خوفناک جنگ کے حوالے سے۔

پہلی نظر میں سعودی عرب اور نہ ہی اسرائیل کو نئی امریکی قیادت سے کوئی شکایات ہونی چاہیے۔ صدر ٹرمپ کے دونوں ممالک کے دورے سے لگتا ہے کہ انھوں نے دونوں کے سٹرٹییجیک نقطہٴ نظر کو قبول کیا اور ایران سے کیے گئے جوہری معاہدے کو گہرے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ خلیج میں امریکی اتحادیوں کو دل کھول کر اسلحے کی فروخت کے نئے معاہدے کر رہے ہیں جس میں اب تک کی سب سے جدید ترین اسلحے کی سپلائی بھی شامل ہے۔

لیکن ہمددری کا احساس ظاہر کرنا ایک چیز ہے اور عملی طور حکمتِ عملی بالکل ایک الگ چیز ہے۔ تاہم صدر کے الفاظ کا جہاں زیادہ خیرمقدم کیا گیا ہے وہ اسرائیل اور سعودی ہو سکتے ہیں تاہم دونوں ممالک جانتے ہیں کہ خطے میں امریکی پالیسی بظاہر بے سمت ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی شام کی جنگ میں ایران اور روس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ بات کرنے تک امریکہ ایران کے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے کوئی مصدقہ اور مربوط پالیسی آگے لے کر نہیں آیا ہے۔

اس میں کوئی حیرانگی نہیں ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے طے کیا ہے کہ ان کے ملک کو اپنے مفادات کے لیے زیادہ سرگرم کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ احساس پایا جاتا ہے جس میں اسرائیل اور سعودی عرب خود کو خطے میں امریکہ کے کم ہوتے اثر و رسوخ اور طاقت کے پرانے کھلاڑی جیسا کہ روس کی واپسی کے تناظر میں خود کو تبدیل کر رہے ہیں۔

اس میں زیادہ بنیادی چیز اور بھی ہے اور وہ یہ کہ شہزادہ محمد بن سلمان ایک ساتھ دو حکمت عملیوں پر کام کر رہے ہیں جس میں ایک طرف ایرانی اثر و رسوخ کو روکنے کے ساتھ سعودی ریاست کو معتدل پسندی پر مبنی جدید خطوط پر استوار کرنا شامل ہے۔ آخرالذکر میں یہ کسی طرح سے عرب سپرنگ کے نتیجے میں ہونے والی اتھل پتھل اور اسلامی شدت پسندی کے خطرات کے نتیجے میں ہو سکتا ہے۔ شہزادہ سلمان اس بات پر قائم ہیں کہ مستقل کے لیے خطے کو لازمی تبدیل ہونا چاہیے تو اس کی شروعات گھر سے کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اصلاحات ایران کو روکنے کے لیے اہمیت کی حامل ہوں۔ نجی طور پر ہونے والی متعدد گفتگوؤں سے مجھے اس بات پر یقین کرنے میں مدد ملی کہ کچھ ایسا ہے جس میں اسرائیل بھی یہ ہی سمجھتا ہے۔

ان کے خیال میں ولی عہد محمد بن سلمان کے اس ایکٹویزم یا فعالیت میں کئی خطرات ہیں۔ لیکن انھوں نے شام کی جنگ کے ساتھ ہونے والی خوفناکی کو دیکھا ہے، جس میں کم از کم بعض اسرائیلیوں کے نزدیک کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ایک معمول کے طور پر لینا شامل ہے جس میں وسیع بین الاقوامی برادری کی جانب سے بہت ہی محدود ردعمل سامنے آیا جس میں اصل میں روس اپنے شامی اتحادی کو بچانے کے لیے سلامتی کونسل میں اپنا تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

اسرائیل شام کو ایک ’لیبارٹری‘ کے طور پر دیکھتا ہے کہ خطے کا مستقبل کس شکل میں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ شہزادہ محمد بن سلمان جو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس میں مثبت پہلوؤں پر زور ڈالنے پر رضامندی دکھا رہے ہیں۔ سعودی-اسرائیلی تعلقات کہاں تک جا سکتے ہیں؟ تو اس کا انحصار کئی پہلوؤں پر ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ولی عہد محمد بن سلمان کے سعودی عرب کو تبدیل کرنے کی راہ پر ڈالنے کے جرات مندانہ اقدام کامیاب ہوں گے؟

بنیادی طور پر اگر سعودی- اسرائیلی شراکت داری سامنے آتی ہے تو یہ سورج کی روشنی کو گھورنے کے مترادف ہو گی، اس میں فلسطین کے محاذ پر پیش رفت کرنا ہو گی۔ سعودی عرب عرصے سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل ہونے پر ہی اسرائیل کو کھلے عام تسلیم کرے گا۔ فلسطینی ریاست کے قیام کے وعدے پر مبنی معنی خیز امن بات چیت کی بحالی کے بغیر اسرائیل، سعودی اتحاد پر سائے قائم رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp