مظاہرین کو شہری آزادی میں خلل کی اجازت نہیں دی جا سکتی: سپریم کورٹ


سپریم کورٹ

پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد ایک حکم نامے میں کہا ہے کہ بظاہردھرنا دینے والی جماعت لبیک یا رسول اللہ کے سیاسی عزائم ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے یہ بات اس دھرنے سے متعلق خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس یعنی آئی ایس آئی کی رپورٹ کی روشنی میں کی ہے جو اس خفیہ ادارے کے حکام نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت میں جمع کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے چند روز قبل کہا تھا کہ دھرنا دینے والوں کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مذہبی معاملے کو لے کر دھرنا دیے ہوئے ہیں۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جمعے کو عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے رپورٹ میں صرف دھرنا دینے والے قائدین کے نام بتائے گئے ہیں جبکہ ان کے گھروں کے پتے، ذرائع آمدن اوران کا مختلف تنظیموں کے ساتھ تعلق کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

عدالت کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے حکام کے مطابق مظاہرین کا کوئی بھی ایجنڈا ہو لیکن اُنھیں شہری آزادی میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ بھی لکھا ہے کہ شواہد سے محسوس ہوتا ہے کہ مظاہرین تازہ دم، نہا دھو کرصاف ستھرے کپڑے پہن کر احتجاج کے لیے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھیں شاہراہ کے بیچ میں نشریاتی سہولتیں بھی میسر ہیں جو کہ عمومی طور پر وہاں پر نہیں ہوتیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مظاہرین پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی موجودگی میں آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان مظاہرین کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر کنٹینرز لگائے ہیں جبکہ مظاہرین نے خود کو عوامی شاہراہ کے درمیان میں ہی محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ خفیہ ادارے اس بات کا بھی سراغ لگائیں کہ مظاہرین کا ذریعہ معاش کیا ہے اور اُنھیں کہاں سے فنڈنگ دی جا رہی ہے۔

اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا ختم کروانے سے متعلق عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وفاقی وزیر داخلہ کو27 نومبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے جبکہ حکومت کو انتخابی اصلاحات میں رکن پارلیمان کے حلف میں ختم نبوت سے متعلق ہونے والی مبینہ غلطی کی چھان بین کے لیے سینیٹر راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں قائم ہونے والی کمیٹی کی رپورٹ بھی اسی روز پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ مقررہ تاریخ سے پہلے اس رپورٹ کو عام نہ کیا جائے۔

جسٹس شوکت عزیز نے سیکریٹری داخلہ اور چیف کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے چیف کمشنر کو حکم دیا کہ وہ تین روز میں دھرنا ختم کروائیں جس پر چیف کمشنر ذوالفقار حیدر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے حکم میں طاقت کے استعمال کا بھی کہہ دیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت براہ راست گولیاں چلانے کا حکم نہیں دے سکتی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ دھرنا ختم کروانے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔

فیض آباد پل

چیف کمشنر ذوالفقار حیدر نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے حکم میں طاقت کے استعمال کا بھی کہہ دیں

چیف کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ نے ضلعی انتظامیہ کو عدالتی حکم پر عمل درآمد سے روکا تھا جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ ’وزیر کے ملازم ہیں یا سرکار کے۔‘

عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ ہو یا وزیر اعظم عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈبل گیم کھیلی جارہی ہے۔ ایک طرف دھرنے میں ججز کو گالیاں دی جارہی ہیں اور دوسری طرف یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ فوج کام کرنے نہیں دے رہی۔

عدالت نے توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت 27 نومبر تک ملتوی کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp